Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر یہ کہ اللہ چاہے اور جب آپ ﷺ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں اور کہیں کہ امید ہے کہ میرا رب اس سے بھی کم مدت میں صحیح بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔
وَلَبِثُوْا فِیْ کَـھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۔ قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ج لَـہٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط اَبْصِرْبِہٖ وَاَسْمِعْ ط مَالَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ ز وَّلاَ یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا۔ (الکہف : 25، 26) ( اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور نو سال مزیدبراں۔ کہہ دیجیے اللہ ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت وہ رہے ہیں، آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا، زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبرگیر اس کے سوا نہیں اور وہ اپنے اختیار میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ) آیت کے مفہوم میں اختلاف اس آیت کریمہ کے مفہوم کے تعین میں مفسرین میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت 22 سے جو جملہ معترضہ شروع ہوا تھا وہ آیت 24 پر ختم ہوا۔ یہ آیت اسی جملہ معترضہ کا حصہ ہے یعنی سلسلہ عبارت یوں ہے کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا … اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے ہیں۔ اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تین سو نو سال کا قول انھیں لوگوں کے اقوال میں سے ہے جو اصحابِ کہف کی تعداد میں اختلاف کرتے تھے اور انھیں ان کی حتمی تعداد کا علم نہیں تھا۔ اسی طرح انھیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ اصحابِ کہف غار میں کتنے سال رہے۔ اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ میرا رب ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے۔ اور یہاں بھی یہی فرمایا گیا کہ یہی لوگ غار میں قیام کی مدت کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں، آپ ﷺ انھیں کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدت قیام کو خوب جانتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے، اللہ تعالیٰ کا اپنا قول نہیں۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر تین سو سال والا قول اللہ تعالیٰ کا ہوتا تو یہ کہنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) بھی اسی تاویل کے قائل تھے۔ دیگر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ تین سو نو سال والا قول اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ یہ مدت پروردگار نے بیان فرمائی ہے۔ نسقِ قرآن سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ ابن کثیر نے اسی کو جمہور مفسرین سلف و خلف کا قول قرار دیا ہے۔ ابوحیان اور قرطبی وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر یہ قول پروردگار کا ہے تو پھر یہ کہنے کا کیا موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی مدت قیام کو بہتر جانتا ہے۔ جمہور مفسرین اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں۔ پہلے میں حقیقتِ واقعہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے۔ 9 سال کے اضافہ کا مفہوم یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے اصحابِ کہف کی مدت قیام تین سو سال بیان کی اور پھر اس کے بعد نو کا اس پر اضافہ کردیا۔ مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہودونصاریٰ میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس کے حساب سے تین سو سال ہی ہوتے ہیں۔ اور اسلام میں چونکہ رواج قمری سال کا ہے اور قمری حساب میں ہر سو سال پر تین سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے تین سو سال شمسی پر قمری حساب سے نو سال مزید ہوگئے۔ ان دونوں سالوں کا امتیاز واضح کرنے کے لیے قرآن کریم نے یہ تعبیر اختیار کی۔ مدتِ قیام کے بارے میں قرآن کریم کی وضاحت کو مؤکد کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ دوسرے لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہ تو اٹکل پچو کے سوا کچھ بھی نہیں، لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جاننے والا ہے۔ دوسروں کو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا اس نے بتایا ہے، باقی سب رطب و یابس کا مجموعہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے علم کی غائت درجہ تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا کہنے ہیں اس کے دیکھنے اور سننے کے۔ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے احاطہ سمع و بصر سے باہر ہو۔ جس طرح وہ اپنے سمع و بصر میں لاانتہا اور لامحدود ہے، اسی طرح اس کی قوتیں بھی بےمثال ہیں، چونکہ وہ ہر چیز سے واقف ہے اس لیے اسے اس بات کی احتیاج نہیں کہ کوئی دوسرا اس کے پاس شفاعت کرے۔ اسی طرح وہ اپنی قدرتوں میں بےپناہ ہے تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابلے میں کوئی کسی کی مدد کرسکے اور وہ اس بات سے بالکل مستغنی ہے کہ کسی کو وہ اپنے اختیار میں شریک کرے۔
Top