Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 110
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَ١ۘ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١۫ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا١ۚ وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ١ۚ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
اِذْ قَالَ : جب کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم اذْكُرْ : یاد کر نِعْمَتِيْ : میری نعمت عَلَيْكَ : تجھ ( آپ) پر وَ : اور عَلٰي : پر وَالِدَتِكَ : تیری (اپنی) والدہ اِذْ اَيَّدْتُّكَ : جب میں نے تیری مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح پاک تُكَلِّمُ : تو باتیں کرتا تھا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : پنگھوڑہ میں وَكَهْلًا : اور بڑھاپا وَاِذْ : اور جب عَلَّمْتُكَ : تجھے سکھائی الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَاِذْ : اور جب تَخْلُقُ : تو بناتا تھا مِنَ : سے الطِّيْنِ : مٹی كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ : پرندہ کی صورت بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے فَتَنْفُخُ فِيْهَا : پھر پھونک مارتا تھا اس میں فَتَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا تھا طَيْرًۢا : اڑنے والا بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَتُبْرِئُ : اور شفا دیتا الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب تُخْرِجُ : نکال کھڑا کرتا الْمَوْتٰى : مردہ بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب كَفَفْتُ : میں نے روکا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل عَنْكَ : تجھ سے اِذْ جِئْتَهُمْ : جب تو ان کے پاس آیا بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ فَقَالَ : تو کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْهُمْ : ان سے اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر (صرف سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
جبکہ اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ! میرے ان انعامات کو یاد کرو ‘ جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیے ‘ جبکہ میں نے روح القدس سے تمہاری تائید کی ‘ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گہوارے میں بھی اور ادھیڑ ہو کر بھی اور یاد کرو ! جبکہ میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی اور یاد کرو ! جبکہ تم مٹی سے ایک صورت ‘ پرندے کی صورت کی مانند ‘ میرے حکم سے بناتے تھے ‘ پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتے تھے اور یاد کرو ! جبکہ تم مردوں کو میرے حکم سے (قبروں سے) نکال کھڑا کرتے اور یاد کرو ! جبکہ بنی اسرائیل کے شر کو میں نے تم سے دور رکھا جبکہ تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے
اِذْ قَالَ اللہ ُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ مہ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلاً ج وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالاِْنْجِیْلَ ج وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ج وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَا اِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ (110) ” جبکہ اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ! میرے ان احسانات کو یاد کرو ‘ جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیے ‘ جبکہ میں نے روح القدس سے تمہاری تائید کی ‘ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گہوارے میں بھی اور ادھیڑعمر کا ہو کر بھی اور یاد کرو ! جبکہ میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی اور یاد کرو ! جبکہ تم مٹی سے ایک صورت ‘ پرندے کی صورت کی مانند ‘ میرے حکم سے بناتے تھے ‘ پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتے تھے اور یاد کرو ! جبکہ تم مردوں کو میرے حکم سے (قبروں سے) نکال کھڑا کرتے اور یاد کرو ! جبکہ بنی اسرائیل کے شر کو میں نے تم سے دور رکھا جبکہ تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے “۔ یہود اور عیسائیوں پر اللہ کی طرف سے اتمامِ حجت اس آیت کریمہ میں پروردگار یہود و نصاریٰ دونوں پر حجت تمام فرما رہے ہیں۔ یہود پر ان معنوں میں کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور آپ کے معجزات کو جادو اور شیطانی اثرات کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ ان کے سامنے جب اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا ذکر فرمائیں گے اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کے احسانات تھیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں پر ان کا ظہور دراصل وہ بینات تھے ‘ جو ان کی نبوت اور صداقت کے دلائل تھے۔ لیکن یہود نے اس کو قبول نہ کر کے اپنی عاقبت تباہ کی اور قرآن کریم کے نزول کے وقت قیامت سے پہلے ‘ ان باتوں کا بیان کرنا یہود کے لیے ایک اتمام حجت سے کم نہیں کہ آج بھی اگر وہ چاہیں تو گمراہی سے نکل کے ہدایت کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں کیونکہ آج اگر وہ قرآن پر اعتماد کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کی صحیح حیثیت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم نہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان نہ لائیں۔ یہی ان کے لیے ہدیت اور سلامتی کا راستہ ہے۔ عیسائیوں پر اس طرح حجت تمام کی جا رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ محترمہ پر جو بھی انعامات ہوئے ‘ وہ ان کی ذات کا اظہار نہ تھے ‘ دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی نبوت کے دلائل تھے اور ان کا ظہور عیسیٰ (علیہ السلام) کے کسی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور تھا۔ اس صورت حال میں عیسائیوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو خیالات بنا رکھے ہیں اور جس طرح سے انھیں خدائی منصب پر فائز کر رکھا ہے ‘ اس کا آخر کیا جواز ہے۔ اب ہم ان معجزات کی جو سراسر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں ‘ تھوڑی سی وضاحت کرتے ہیں ‘ تاکہ انھیں سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ ْحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات (ا)…حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت : اس میں سب سے پہلے جس احسان کا ذکر ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اے عیسیٰ ! میرے اس احسان کو یاد کرو ! جو میں نے تجھ پر کیا اور تیری والدہ پر کیا۔ یوں تو یہ احسانات کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ لیکن بطور خاص یہاں جس بات کا ذکر ہو رہا ہے ‘ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خرق عادت ولادت ہے۔ اس صورتحال کو آپ ذہن میں لایئے تو پھر اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا احسان تھا ‘ جو اللہ تعالیٰ نے ماں بیٹے پر کیا۔ صورتحال یہ ہے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) ابھی کنواری ہیں ‘ اس کنوارے پن میں اللہ تعالیٰ انھیں اس آزمائش سے دوچار کردیتے ہیں کہ وہ ایک بچے کی ماں بن جاتی ہیں۔ آپ ایک جانے پہچانے معروف اور معزز خاندان کی آبرو ہیں۔ اچانک جب وہ اس نوزائیدہ بچے کو لے کر اپنے لوگوں میں آتی ہیں تو انھیں عجیب صورتحال سے واسطہ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ زبانیں کھلنے لگتی ہیں۔ قرآن پاک اس کا تذکرہ کرتے ہوا کہتا ہے : فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَھَا تَحْمِلُہٗ ط قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا۔ فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ ط قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا۔ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قفط اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ ص وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّبَرًّام بِوَالِدَتِیْ ز وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا۔ (سورۃ مریم 19: 27 تا 33) (پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ” اے مریم ! یہ تو تو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن ! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کیا بات کریں ‘ جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے ؟ بچہ بول اٹھا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ‘ اور نبی بنایا اور بابرکت کیا ‘ جہاں بھی میں رہوں اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ‘ جب تک میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر ‘ جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں) اندازہ فرمایئے ! صورتحال کس قدر سنگین ہے ‘ حضرت مریم (علیہا السلام) کی عفت و عصمت اور ان کے صاحبزادہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا حسب و نسب دونوں معرض خطر میں ہیں۔ ایک کنواری لڑکی ‘ ایک بیٹے کو جنم دیتی ہے۔ دنیا کا کوئی اخلاق اس لڑکی کی عفت مآبی کی گواہی نہیں دے سکتا اور دنیا کا کوئی قانون بیٹے کو صحیح النسب ثابت نہیں کرسکتا۔ ایسے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پنگھوڑے میں بولنا اور اللہ کی طرف سے اپنے نبی ہونے کا اعلان کرنا ‘ یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے ‘ جس نے شک و شبہ کرنے والوں کے دلوں کو بدل ڈالا اور طعن وتشنیع کرنے والوں کی زبانیں گنگ کردیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ احسان نہ فرماتے تو زمین و آسمان بھی ہم آغوش ہوجاتے تو بھی نہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی پاکدامنی ثابت ہوسکتی اور نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نسب کی گواہی دی جاسکتی۔ اس لیے قرآن کریم نے سب سے پہلے اللہ کے اسی احسان کا ذکر فرمایا۔ (ب) …روح القدس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد : دوسرے جس احسان کا ذکر کیا گیا ہے ‘ وہ ہے ” اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ کہ ” ہمارے اس احسان کو یاد کرو ! جب ہم نے روح القدس سے تمہاری تائید کی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ مختصراً گزارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی نبوت کی شہادت کے لیے ‘ آپ کو بڑے بڑے معجزات عطا کیے ‘ جو آپ کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اس قدر واضح تھے کہ ان کو خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی ہٹ دھرم ہی شک کرسکتا تھا۔ لیکن یہودنے ان کھلے کھلے معجزات کو بھی تائید ربانی اور فیض روح القدس کا نتیجہ قرار دینے کی بجائے ‘ نعوذ باللہ ! شیطانی تصرف کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ معجزے شیطانوں اور بھوتوں کے سردار ” بعلز بول “ کی مدد سے دکھاتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہود کے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بار بار یہ فرمایا : اَیَّدْ نَاہُ بِرُوْحِ القُدُس (ہم نے روح القدس سے اس کی مدد کی ) یعنی اس سے جو معجزے صادر ہوئے ‘ یہ تائید روح القدس کا نتیجہ ہیں نہ کہ کسی شیطان یا جن کی مدد کا ‘ جیسا کہ یہود کہتے ہیں۔ انجیل میں یہود کے اس الزام کا ذکر بار بار آیا ہے اور ان کے اس الزام کا جو جواب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دیا ہے ‘ وہ بھی نقل ہوا ہے۔ ہم یہاں ایک اقتباس انجیل متی سے پیش کرتے ہیں : (اس وقت اس کے پاس لوگ ایک اندھے، گونگے کو لائے ‘ جس میں بدروح تھی۔ اس نے اسے اچھا کردیا۔ چناچہ وہ گونگا بولنے اور دیکھنے لگا اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کہ کیا یہ ابن دائود ہے۔ فریسیوں نے سن کر کہا ! یہ بدروحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا۔ اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا ‘ جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے ‘ وہ ویران ہوجاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنے مخالف ہوگیا ‘ پھر اس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی اور اگر میں ” بعلز بول “ کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں ؟ پس وہی تمہارے منصف ہوں گے ‘ لیکن اگر میں خدا کی روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آپہنچی یا کیونکر کوئی آدمی کسی زورآور کے گھر میں گھس کر اس کا اسباب لوٹ سکتا ہے جب تک کہ پہلے اس زورآور کو نہ باندھ لے۔ پھر وہ اس کا گھر لوٹ لے گا۔ جو میرے ساتھ نہیں ‘ وہ میرے خلاف ہے۔ جو میرے ساتھ جمع نہیں کرتا ‘ وہ بکھیرتا ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا ‘ مگر جو کفر روح کے حق میں ہے ‘ وہ معاف نہ کیا جائے گا اور جو کوئی ابن آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا ‘ تو وہ معاف کی جائے گی۔ لیکن جو کوئی روح القدس کے خلاف کوئی بات کہے گا ‘ وہ معاف نہ کی جائے گی ‘ نہ اس عالم میں اور نہ آنے والے عالم میں یا تو درخت کو بھی اچھا کہو اور اس کے پھل کو بھی اچھا یادرخت کو بھی براکہو اور اس کے پھل کو بھی برا کہو کیونکہ درخت پھل سے ہی پہچانا جاتا ہے) (متی باب 12۔ آیات 22-23) اس پس منظر کو اگر سامنے رکھا جائے تو تب یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں روح القدس کی تائید کا کیوں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جہاں تک روح القدس کی تائید کا ذکر ہے ‘ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں۔ وہ ہر پیغمبر کو حاصل ہوتی ہے اور پیغمبر سے جو معجزات صادر ہوتے ہیں ‘ وہ اسی تائید کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باب میں اس بات کا اظہار بار بار اس لیے فرمایا گیا کہ یہود ان پر مذکورہ بالا الزام لگاتے تھے۔ روح القدس سے مراد وہ پاکیزہ روح ہے ‘ جو خدا کی طرف سے آتی ہے اور عبرانی میں اس سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ (ج) …حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بڑھاپے میں بھی لوگوں سے کلام کریں گے : تیسرا معجزہ جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے وہ ہے : تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلاً (تو لوگوں سے باتیں کرتا ہے ‘ گہوارے میں اور بڑھاپے میں۔ ) جہاں تک گہوارے میں باتیں کرنے کا تعلق ہے ‘ یہ تو یقیناً ایک معجزہ ہے کیونکہ انسانی بچہ ایک خاص عمر کو پہنچ کے بولنا سیکھتا ہے ‘ پیدا ہونے کے چند دنوں بعد بولنے لگنا اور وہ بھی اس طرح جیسے بڑی عمر کا آدمی بولتا ہے اور ایسی عقل و خرد کی باتیں کرنا کہ بڑے بڑے اسے سن کر دنگ رہ جائیں۔ یہ یقینا ایک غیر معمولی بات ہے ‘ جو ایک معجزہ ہی کہی جاسکتی ہے۔ لیکن کہولت اور بڑھاپے میں باتیں کرنا یہ تو ایک معمول کی بات ہے۔ ہر آدمی بڑھاپے میں ‘ جب تک اس کی زبان ساتھ دیتی ہے، باتیں کرتا ہے بلکہ جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جاتا ہے ‘ زیادہ باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس لیے ایک ایسی بات کو جو تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے ‘ معجزے کے طور پر پیش کرنا ‘ ناقابل فہم سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کا پس منظر سمجھ لیا جائے تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات کتنا بڑا معجزہ ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ عیسائی دنیا کا یہ دعویٰ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے دنیا میں تینتیس (33) سال عمر گزاری ہے۔ تیس سالوں کے بارے میں عیسائی کچھ نہیں جانتے۔ البتہ ! آخری تین سالوں کے بارے میں انجیل ان کے احوال سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ یہودی جو آپ کی پیغمبرانہ دعوت کی وجہ سے ان کے جانی دشمن ہوگئے تھے ‘ انھوں نے آنجناب کے خلاف سازش تیار کی ‘ حکومت کو ورغلایا ‘ بالآخر آپ کو گرفتار کرانے میں کامیاب ہوگئے ‘ پولیس آپ کو گرفتار کر کے عدالت تک لے گئی ‘ عدالت نے آپ کو سولی دینے کا حکم دیا۔ چناچہ یہود و نصاریٰ ‘ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کو سولی دے دی گئی۔ البتہ ! عیسائیوں کا مزید یہ دعویٰ ہے کہ : (تین دن کے بعد آپ کی قبر خالی پائی گئی اور آپ قبر سے نکل کر آسمانوں پر چلے گئے اور وہاں اللہ کے عرش پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھ کر کائنات پر حکمرانی کرنے لگے) اس پوری صورتحال کو سامنے رکھیے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کا دعویٰ یہ ہے اور قرآن کریم جس کی شہادت دیتا ہے کہ یہود اپنی ساری کوششوں کے باوجود نہ آپ کو صلیب دے سکے اور نہ آپ کو قتل کرسکے۔ انھوں نے اپنے تئیں آپ کے قتل کے سارے اسباب فراہم کردیئے تھے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ قربِ قیامت میں دجال کا فتنہ فرو کرنے کے لیے آپ دمشق میں اتارے جائیں گے اور آپ اسی عمر میں ہوں گے جس عمر میں آپ آسمانوں پر اٹھائے گئے تھے۔ پھر آپ رسول اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے ‘ چالیس سال تک ایک عادلانہ حکومت کریں گے۔ جب آپ بوڑھے ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو موت دے گا اور آپ اپنے اللہ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو جب آپ موت سے دوچار ہوں گے تو اس وقت آپ کی عمر تہتر سال ہوگی اور اس وقت تک آپ ایک حکمران کی حیثیت سے احکام جاری کرتے ہوں گے۔ وعظ و نصیحت فرماتے ہوں گے ‘ اصلاح و تبلیغ کا کام کرتے ہوں گے ‘ یہ ہے بڑھاپے میں آپ کا بولنا ‘ جو ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ جوانی میں اٹھائے جانے کے بعد آسمانوں سے پھر آپ کا نزول ہونا اور پھر بڑھاپے کی عمر تک ایک عادلانہ حکومت چلانا ‘ یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ‘ جو صرف آپ کی خصوصیت ہے۔ اس لحاظ سے یہاں اس کو معجزہ قرار دیا گیا ہے اور اللہ کے احسانات میں شمار کیا گیا ہے۔ (د) …حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی : اس کے بعد فرمایا : وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالاِْنْجِیْلَ (اور اس وقت کو یاد کرو جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل دی) تورات اور انجیل کے الفاظ یہاں کتاب اور حکمت کی تفسیر کے طور پر آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان دونوں چیزوں کی تعلیم عطا فرمائی۔ جہاں تک کتاب و شریعت کا تعلق ہے ‘ حضرت مسیح ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے پیرو اور داعی تھے وہ تورات سے الگ شریعت لے کر نہیں آئے تھے۔ اس حقیقت کا اعلان بار بار بڑے زور اور تاکید کے ساتھ انھوں نے خود فرمایا تھا۔ انجیلوں میں اس کی تصریحات موجود ہیں۔ البتہ ! انھوں نے اس شریعت کی روح اور اس کی حکمت نہایت معجزانہ انداز میں بےنقاب فرمائی ہے اور اناجیل درحقیقت ان کی انہی حکمتوں کا مجموعہ ہے۔ یہود نے تورات کو بالکل بےروح احکام اور بےجان رسوم کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس وجہ سے ان کی شریعت زندگی سے بالکل خالی ‘ ان کے لیے صرف ایک بوجھ بن کے رہ گئی تھی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس کے اندر اپنی تعلیمِ حکمت سے زندگی پیدا کی اور یہی وہ چیز ہے ‘ جس کو یہاں معجزے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد مزید چند معجزات کا ذکر ہے ‘ جن کا تذکرہ انجیل میں بھی کیا گیا ہے۔ یعنی مٹی سے پرندے کی ایک شکل بنانا اور پھر اس میں پھونکنا اور اللہ کے حکم سے اس کا پرندہ بن جانا۔ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو اللہ کے حکم سے صحت مند کردینا۔ مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کردینا۔ لیکن ان تمام معجزات کے ذکر میں بطور خاص جو لفظ توجہ کے قابل ہے ‘ وہ ہے ” بِاِذْنِِی “ جس کا معنی ہے ” میرے حکم سے “۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ عیسائیوں کے عقیدے کا بگاڑ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے حضرت مسیح کے تمام معجزات کو ان کی ذات کی طرف منسوب کیا۔ یہاں ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان سے جتنے حیرت انگیز معجزات کا صدور ہوا ہے ‘ وہ ان کی اپنی ذات کے کمال کا نتیجہ نہیں ‘ بلکہ وہ سراسر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور تھے۔ انھوں نے جتنے معجزات بھی دکھائے ‘ سب اللہ کے اذن و حکم سے دکھائے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے ‘ جس کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ جب یہ سارے معجزات اللہ کے حکم اور اذن سے صادر ہوئے ہیں تو پھر نصاریٰ یہ بتائیں کہ انھوں نے آخر کس علمی دلیل کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بنا ڈالا کیونکہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے ہاتھ سے جو کچھ صادر ہو رہا ہے ‘ میں خود اس کا فاعل ہوں بلکہ جب آپ کسی مردے سے یہ کہتے کہ تم زندہ ہوجاؤ تو آپ یہ نہیں کہتے تھے کہ میرے حکم سے زندہ ہوجاؤ بلکہ یہ کہتے تھے کہ میرے رب کے حکم سے زندہ ہوجاؤ۔ اسی پر باقی معجزات کو بھی قیاس کرلیجئے۔ جب حقیقت صرف یہ ہے تو پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں الوہیت کی علامات کہاں سے تلاش کرلی گئیں کہ ان کو خدا یا خدا کا بیٹا بنادیا گیا بلکہ اس آیت کے اگلے حصے میں یہ تک فرمایا گیا ہے کہ جب یہود (بنی اسرائیل) نے آپ کو صلیب دینے کی کوشش کی اور آپ کی جان کے درپے ہوگئے تو خود آپ کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ اپنے آپ کو ان دشمنوں کی دسترس سے بچا لیتے۔ اللہ فرماتا ہے۔ یہ میرا احسان ہے کہ میں نے بنی اسرائیل کی ظالمانہ کاروائی سے آپ کو محفوظ رکھا اور آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ جو ذات والاصفات اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ‘ اپنی ذات کا تحفظ نہ کرسکے اس کے لیے بھی وہ اپنے اللہ کی محتاج ہو ‘ اسے بجائے اللہ کا برگزیدہ بندہ قرار دینے کے ‘ خود معبود قرار دے دینا ‘ تاریخ میں شاید اس سے بڑے ظلم کی مثال اور کوئی نہ ہو۔ اگلی آیت کریمہ میں ایک عجیب بات ارشاد فرمائی جا رہی ہے ‘ وہ یہ کہ انسانی قلوب اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ انھیں جدھر چاہتا ہے ‘ پھیر دیتا ہے۔ اگر وہ کسی کو مسلمان بنانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اسلام قبول کرنے سے روک نہیں سکتی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اگر واقعی خدائی قدرتوں کے مالک تھے تو پھر کس قدر عجیب بات ہے کہ وہ اپنی ساری دعوتی مساعی اور اپنے سارے معجزات کے صدور کے باوجود نہ یہودی عوام کو قائل کرسکے اور نہ یہودی علماء کو بلکہ جیسے جیسے ان کی تبلیغی کاوشوں میں تیزی آتی گئی ‘ ویسے ویسے ان کی دشمنی بھی بڑھتی گئی۔ بالآخر ایک ذخیرہ آب کے کنارے پہنچے تو وہاں ماہی گیروں کے سامنے اللہ کا دین پیش کیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرا فضل و احسان تھا کہ میں نے ماہی گیروں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں ورنہ حضرت مسیح کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ ایمان کی دولت سے انھیں بہرہ ور کرسکتے۔
Top