Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 15
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
ان سے کہو کہ اگر دار آخرت کی کامیابیاں اللہ کے ہاں دوسروں کے بالمقابل تمہارے ہی لیے مخصوص ہیں تو موت کی آرزو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو
اوپر کی آیت ۹۰ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ یہود اس بات سے بہت برافروختہ ہوتے تھے کہ خدا کے کسی فضل وانعام کا حق دار ان کے سوا کسی اور کو سمجھا جائے۔ وہ دنیا میں بھی ہر خدائی نعمت کا حق دار اپنے ہی کو سمجھتے تھے اور آخرت کی نعمتوں کا حق دار بھی تنہا اپنے ہی کو سمجھتے تھے۔ قرآن نے ان کو متنبہ کیا کہ اگر تم فی الواقع آخرت کی تمام کامیابیاں اپنا ہی حصہ سمجھتے ہو، اس میں دوسروں کا کوئی حصہ تسلیم نہیں کرتے تو ا س کا تقاضا تو یہ ہونا چاہئے کہ تمہیں لقائے رب کا شوق ہو اور تم اس کے لئے موت کی آرزوئیں کرو۔ لیکن تمہارا حال تو یہ ہے کہ تم زندگی کی محبت میں اہل کتاب ہو کر عرب کے مشرکوں کو بھی مات دے گئے ہو۔ قرآن نے یہود کی یہ ایک بہت دکھتی رگ پکڑی ہے تاکہ خدا کے محبوب ومقرب ہونے کا ان کو جو گھمنڈ تھا اس پر ذرا وہ شرمائیں۔ اگرچہ وہ اپنی عادت کے مطابق بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کے جواب میں کہہ سکتے تھے کہ ہم تو موت کی بڑی آرزو رکھنے والے لوگ ہیں لیکن آدمی سے خود اپنے دل کا حال چھپا ہوا نہیں ہوتا اس وجہ سے یہ حقیقت ان کے لئے بڑی تلخ اور ان کو خود ان کی نگاہوں میں بڑی رسوا کرنے والی تھی۔
Top