Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 28
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ
وَمَآ اَنْزَلْنَا : اور نہیں اتارا عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ جُنْدٍ : کوئی لشکر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم مُنْزِلِيْنَ : اتارنے والے
اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی فوج نہیں اتاری اور نہ ہم اتارنے والے ہی تھے۔
آیت 28۔ 29 ’ من بعدہ ‘۔ میں مذکورہ بالا دو باتوں کا امکان ہے۔ ان کی موت کے بعد یا ان کی ہجرت کے بعد۔ یہ اس سنت الٰہی کا حوالہ ہے جس سے مکذبین کو لازماً سابقہ پیش آتا ہے جب کہ رسول اور اس کے ساتھ قوم کو چھوڑ کر ہجرت کر جات ہیں۔ فرمایا کہ اس کے بعد ہمیں اس کی قوم کو پامال کرنے کے لئے آسمان سے کوئی فوج نہیں اتارنی پڑی بلکہ ہماری ایک ہی ڈانٹ میں وہ پامال ہو کے رہ گئے۔ لفظ سیحۃ عذاب کی تعبیر ہے۔ ’ وما کن منزلین ‘ سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی فوج نہ اتارنے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے کاموں کے لئے ہم اپنی فوجیں نہیں اتارا کرتے، بس ہماری ایک ڈانٹ ہی کافی ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی نگاہ میں رہے کہ ہرچند یہ عذاب اصلاً موسیٰ ؑ و حضرت ہارون ؑ کی تکذیب کے نتیجہ میں آیا لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بندہ مومن کی تکذیب کے نتیجہ کی حیثیت سے ذکر فرمایا ہے۔ اس سے رسول کے ساتھیوں کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کا یہ درجہ ہوتا ہے کہ ان کی تکذیب رسول کی تکذیب کے ہم معنی بن جاتی ہے اور اس کا وہی انجام ہوتا ہے جو رسول کی تکذیب کا ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت موسیٰ کے مکذبین۔ فرعون اور اس کی قوم۔ پر جو عذاب آیا اس کی شکل تو یہ ہوئی کہ فرعون اپنی تمام فوج سمیت دریا میں غرق کردیا گیا سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بھی کوئی اسی طرح کا عذاب آیا جس طرح کا عذاب عاد وثمود اور دوسری پچھلی قوموں پر آیا جس کا اندیشہ اس مرِ مومن نے اپنی اس تقریر میں ظاہر کیا تھا جو سورة مومن کے حوالے سے اوپر نقل ہوئی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم پر دونوں قسم کے عذاب آئے۔ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی فوجوں کو ایک سائیکلونی طوفان کے ذریعے سے سمندر میں غرق کردیا، دوسری طرف، رعدو برق اور زلزلہ کے عذاب نے مصر کی تمام تعمیرات اور اس کے سارے باغ و چمن تاراج کردیے۔ اس دوسرے عذاب کا ذکر تورات میں نہیں ہے لیکن قرآن میں اس کا ذکر نہایت واضح الفاظ میں ہے۔ مثلاً فرمایا ہے : ودمرنا ما کان یصنع فرعون و قومہ وما کانوا یعرشون (الاعراف : 137) اور ہم نے تاراج کردیے وہ سب کچھ جو فرعون اور اس کی قوم کے لوگ بناتے رہے تھے اور ان کے انگوروں کے وہ باغ بھی جن کو وہ ٹیٹیوں پر چڑھاتے تھے۔ یہی بات سنت ِ الٰہی کے مطابق بھی ہے۔ رسول کی تکذیب کے نتیجہ میں جو عذاب کسی قوم پر آیا ہے اس نے قوم کے قومی وجود کی جڑ کاٹ دی ہے۔ یہ بات مجرد فرعون اور اس کی فوجوں کے غرق ہونے سے نہیں پوری ہوسکتی تھی۔ یہ اسی طرح کے کسی عذاب سے پوری ہوسکتی تھی جس کی طرف سورة اعراف کی مذکورہ بالا آیات اشارہ کرر ہی ہے۔ اسی کا ذکر یہاں آیت زیر بحث میں ہے۔
Top