بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
(اے نبی، تم اپنی بیویوں کی دل داری میں وہ چیز کیوں حرام ٹھہراتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہے ! اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم) (1)۔ (پیغمبر ﷺ کے ایک فعل پر احتساب)۔ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ اس سورة میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جن کے ساتھ محبت و مروت کے تعلقات ہوں خدا کے حدود و حقوق کے معاملات میں ان کے ساتھ بھی کوئی مداہنت و رعایت جائز نہیں ہے بلکہ اس محبت ہی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا احتساب زیادہ احتیاط کے ساتھ ہوتا رہے تاکہ خدا کے چھاج میں پھٹکے جانے سے پہلے ہی ممکن ہو تو ان کی اصلاح ہوجائے اور اگر اصلاح نہ ہو تو بدرجہ ادنیٰ اپنے حق نصیحت سے عند اللہ بری الذمہ ہوجائے۔ اس حقیقت کو مبرہن کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں سب سے پہلے اپنے پیغمبر ﷺ ہی پر گرفت فرمائی کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات ؓ کی دلداری کے خیال سے اپنے اوپر ایک ایسی چیز حرام کیوں کرلی جو اللہ نے آپ کے لیے جائز کی ؟ غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر ﷺ اور ان کی ازواج ؓ سے زیادہ کون محبوب ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کی ایک معمولی سی فروگذاشت پر جو خود قرآن کے بیان کے مطابق ایک نہایت نیک محرک سے صادر ہوئی۔ آپ کو تنبیہ فرمائی گئی تاکہ ہر شخص کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے کہ خدا کے حدود وقیود کی پابندی سے جب پیغمبر ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات ؓ بھی بالا نہیں ہیں تو تابہ دیگراں چارسد !ٖ (واقعہ کی نوعیت)۔ رہا یہ سوال کہ آنحضرت ﷺ نے ازواج کی دلداری کے خیال سے اپنے اوپر کیا چیز حرام کرلی تھی تو اس کے جواب میں راویوں سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی کے پاس شہد نوش فرمایا جس کی بو پر آپ کی بعض ازواج نے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ شہید کی بعض قسمیں ناگوار بو کی ہوتی بھی ہیں اور نہ بھی ہوں تو جو لوگ زیادہ ذکی الحسن ہوتے ہیں وہ ہر بو کو پسند نہیں کرتے۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ شدید لاحساس ہوتی ہیں۔ وہ بسا اوقات اچھی بھلی اور اچھی خاصے ذائقہ کی چیزوں کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ امہات المومنین ؓ میں سے بھی بعض کو وہ شہد پسند نہیں تھا جس میں مغافیر کی بو ہو۔ چناچہ انہوں نے اپنی اس ناگواری کا اظہار حضور ﷺ کے سامنے فرمایا۔ حضور ﷺ چونکہ خود نہایت لطیف المذاق اور دوسروں بالخصوص جنس ضعیف کے جذبات و احساسات کا بڑا پاس ولحاظ رکھنے والے تھے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے عہد کرلیا کہ اب کبھی شہد نوش نہیں فرمائیں گے۔ (1 ؎۔ ایک خاص بوٹی کا نام ہے جس سے شہد کی مکھیاں لیتی ہیں لیکن بعض لوگوں کو اس کی بو ناگوار ہوتی ہے۔) عام حالات میں تو یہ کوئی غیر معمولی نہیں تھی بلکہ ایک نیک محرک سے صادر ہونے کا سبب سے نہایت پسندیدہ بات تھی لیکن پیغمبرکا ہر قول و فعل دین میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ہر عمل پوری امت کے لیے مثال و نمونہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ذاتی ذوق و رجحان اور اپنے محبوب سے محبوب لوگوں کی خاطر سے بھی کوئی ایسی بات کہے یا کرے جو بال برابر بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے متجاوز ہو، ورنہ پوری امت کے لیے ایک غلط مثال قائم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ یہود کے متعلق معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر اونٹ کی صرف اس بنا پر حرام کرلیا کہ حضرت یعقوب ؑ کسی سبب سے اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کے علم میں یہ بات آئی کہ حضور ﷺ نے شہد نہ کھانے کا عہد کرلیا تو کوئی متقی مسلمان مشکل ہی سے شہد کو ہاتھ لگاتا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر گرفت فرمائی اور فوراً اس کی اصلاح کے لئے ہدایت فرمائی۔ (حضور ﷺ کے فعل کا محرک)۔ (تبتغی مرضات ازواجک)۔ سے اس محرک کی طرف اشارہ ہے جو آپ کے اس اقدام کا باعث ہوا۔ اس محرک کا پتہ دینا اس لیے ضروری ہوا کہ اس سورة کا مقصد ہی جیسا کہ ہم نے تمہید بیان کیا، یہ تعلیم دنیا ہے کہ حق کے ساتھ محبت کے تعلقات ہوں ان کے احتساب بھی آدمی کو مداہن نہیں ہونا چاہیے۔ نفرت کی طرح محبت بھی حدود الٰہی کے احترام سے آدمی کو غافل کردیتی ہے۔ اس خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ اور آپ کی ازواج پر گرفت فرمائی، جن سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں کوئی دوسرا محبوب نہیں ہوسکتا، تاکہ مسلمانوں کو اس سے یہ سبق حاصل ہو کہ دین کے معاملے میں کسی محبوب سے محبوب کے ساتھ بھی کوئی رکاوٹ جائز نہیں ہے۔ (غلطی پر گرفت کے ساتھ معافی کا اعلان)۔ (حضور ﷺ کے اس فعل کا محرک چونکہ نہایت نیک تھا۔ آپ نے محض جذبہ رافت و محبت کے تحت، خاص اپنی ذات کے لیے ایک فیصلہ فرمایا تھا، امت کے لیے کسی چیز کو حرام کرنا مقصود نہیں تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے گرفت کے ساتھ ہی اس فروگزاشت کی معافی کا اعلان بھی فرما دیا۔ یہاں اس امر پر نگاہ رہے کہ معافی کے اعلان میں نہایت مبادرت پائی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح کے کسی اقدام کا شرعی حکم بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا گیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتی ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے اپنے اس فعل کا وہ پہلو بالکل نہیں تھا جس پر گرفت فرمائی گئی بلکہ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ آپ نے محض جذبہ برات کے تحت جنس ضعیف کی دلداری کے لیے اپنی ذات پر ایک پابندی عائد فرما لی تھی، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت تو فرمائی تاکہ اس سے وہ مضرتیں نہ پیدا ہوں جن کے پیدا ہونے کا امکان تھا لیکن ساتھ ہی اس کے معافی کا اعلان بھی فرما دیا تاکہ یہ گرفت پیغمبر ﷺ کے دل پر گراں نہ گزرے۔ (حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے صادر ہونے والی لغزشوں کی نوعیت)۔ یہی وہ بات یاد رکھیے جو اس کتاب میں ہم بار بار بیان کرچکے ہیں کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی لغزش صادر ہوتی ہے تو وہ نفس کی پاسداری میں نہیں ہوتی بلکہ کسی خیر کی پاسداری میں وہ حد مطلوب سے متجاوز ہوجاتے ہیں۔ بیویوں کی دلداری کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ شرافت، مروت، فتوت کا تقاضا اور فطرت و شریعت کا مطالبہ ہے جس کی قرآن نے تاکید فرمائی ہے بشرطیکہ یہ شریعت کے حدود کے اندر رہے۔ اگر یہ اس سے متجاوز ہونے لگے تو یہ فتنہ بن جاتی ہے جس سے بچنا اور بچانا ضروری ہے لیکن جب کسی فروگزاشت کا محرک نیک ہو تو اس پر گرفت اس طرح ہونی چاہیے کہ عفو و در گزر اس کے ہم رکاب رہے۔
Top