Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 51
وَ لَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
وَلَا تَجْعَلُوْا : اور نہ تم بناؤ مَعَ : ساتھ اللّٰهِ : اللہ کے اِلٰهًا اٰخَرَ ۭ : کوئی دوسرا الہ اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا ہوں کھلم کھلا
اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔48
سورة الذّٰرِیٰت 48 یہ فقرے اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ نبی ﷺ ہیں۔ گویا بات دراصل یوں ہے کہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کہلوا رہا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہیں اس کی طرف سے خبردار کرتا ہوں۔ اس طرز کلام کی مثال قرآن کی اولین سورة ، یعنی سورة فاتحہ میں موجود جس میں کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر متکلم کی حیثیت سے بندے عرض کرتے ہیں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ ، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ جس طرح وہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ " اے اہل ایمان تم اپنے رب سے یوں دعا مانگو "، مگر فحوائے کلام سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ ایک دعا ہے جو اللہ اپنے بندوں کو سکھا رہا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ " اے نبی تم ان لوگوں سے کہو "، مگر فحوائے کلام خود بتارہا ہے کہ یہ توحید کی ایک دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نبی ﷺ پیش کر رہے ہیں۔ سورة فاتحہ کے علاوہ اس طرز کلام کی اور بھی متعدد نظیریں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں کلام تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر متکلم کہیں فرشتے ہوتے ہیں اور کہیں نبی ﷺ ، اور اس امر کی تصریح کے بغیر کہ یہاں متکلم کون ہے، سیاق عبارت سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اللہ اپنا یہ کلام کس کی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورة مریم 64۔ 65۔ الصافات 159 تا 167۔ الشوریٰ 10۔
Top