Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 29
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تَدْخُلُوْا : تم داخل ہو بُيُوْتًا : ان گھروں میں غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ : جہاں کسی کی سکونت نہیں فِيْهَا : جن میں مَتَاعٌ : کوئی چیز لَّكُمْ : تمہاری وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
تم کو ایسے مکان میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں جس میں کوئی رہتا نہ ہو اس میں تمہارا سامان ہو اور اللہ خوب جاتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو
غیر مسکونہ گھروں میں داخل ہونے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے : 40۔ ہ۔ غیر مسکونہ گھروں میں داخل ہونے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہاں ! اتنا خیال رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بظاہر لوگوں کے سامنے تو غیر آباد مکان میں داخل ہوجاؤ اور وہاں کسی دوسرے مکان مسکونہ میں کود جاؤ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ پر تمہاری فریب کاری اور مکارہی نہیں چل سکتی اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے اور ظاہر و باطن اس کے لئے یکساں ہے ، غیر مسکونہ گھر کن کو کہا گیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ مسافر خانے ‘ دکانیں ‘ سرائے مہمان خانے ‘ ہوٹل اور اس طرح عبادت خانے اس ضمن میں آتے ہیں کہ ان جگہوں پر جانے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ گزشتہ تین آیتوں کے مضمون پر ذرا غور کرو اور ان آیات میں جو قانون بیان کیا گیا ہے اس قانون کی ہر شق پر اچھی طرح غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ اخلاق کی پاکیزگی اور نفس کی طہارت کے لئے بہترین قانون ہے اور آج اگرچہ مسلمانوں نے اس کو چھوڑ دیا ہے مگر غیر مسلم قوموں کے ہاں اس کو اپنایا گیا ہے ۔ ان کے ہاں ملاقات کے لئے وقت اور ان کا تعین عام سی بات ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہی طریقہ صحیح طریقہ ہے ، اجازت لے کر دوسروں کے گھروں میں داخل ہونا دونوں کیلئے مفید ہے جن لوگوں سے تمہیں ملنے کی خواہش ہے وہ تم سے ملنے کے لئے تیار ہوجائیں گے ‘ اپنی حالت درست کرلیں گے اور اچانک کسی کے گھر میں گھس آنے سے جو غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اس کا سدباب ہوجائے گا بلاشبہ یہ قانون نہایت مفید اور نتیجہ خیز ہے اس کی پابندی سے بداخلاقی کے تمام منافذ بند ہوجائیں گے اور تمہیں اس امر کا اطمینان ہوجائے گا کہ میرے گھر میں کوئی شخص میری اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا پھر تم علم ومال کے حصول اور اشاعت اسلام کے لئے دوردراز کا سفر اختیار کرسکو گے اور اس طرح تمہارے سامنے ترقی کی صدہا راہیں کھل جائیں گی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر اطلاع کے تمہارے مکان میں جھانکے اور تم اسے کنکری مار دو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کچھ مواخذہ نہ ہوگا ۔ (صحیح بخاری) ایک حدیث میں ہے کہ جابر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اندر داخل ہونے کے لئے اجازت چاہی اور دروازہ کھٹکھٹایا آپ ﷺ نے پوچھا کون ؟ میں نے جواب دیا کہ میں ہوں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ‘ میں کیا ؟ اس طرح دراصل آپ ﷺ نام کی تصریح چاہتے تھے ۔ عبداللہ بن مسعود کا کہنا تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنی ماؤں ‘ بہنوں اور بیٹیوں کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤ ۔ ایک اثر میں اس طرح ہے کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ ملاقات کے لئے حضرت عمر ؓ کے پاس گئے اور تین مرتبہ سلام کیا اور جب جواب نہ ملا تو لوٹ آئے کچھ دیر بعد حضرت عمر ؓ نے کہا کہ غالبا میں نے عبداللہ بن قیس کی آواز سنی ہے انہیں اندر بلا لیجئے مگر وہ جا چکے تھے واپس آئے تو آپ نے اس کا سبب پوچھا ‘ انہوں نے جواب دیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ استاذن احدکم ثلاثا فلم یوذن لہ فیلنصرف “ عمر فاروق ؓ نے کہا کہ اس حدیث پر کون گواہ ہے تو وہ ابو سعید خدری کو لائے تو انہوں نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے اس کی تصدیق کی تو آپ نے فرمایا بازار کے شور وغوغا نے مجھے ان کی طرف سے غافل کردیا تھا ۔ کتنا بہترین اور اچھا اصول ہے کہ آپ کو فرصت نہیں تو آنے والے سے کہہ دیجئے کہ آپ پھر آئیں اس وقت نہیں مل سکتا لیکن آج کل کیفیت یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک شخص ملنے کو آئے اور اس سے ملاقات کرنے کو آپ اپنی مجبوری ظاہر کردیں تو وہ تمام عمر کے لئے آپ سے ناراض ہوجائے گا حالانکہ بعض مہاجرین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ” میں تمام عمر اس امر کی تلاش میں رہا کہ کبھی دوست کے مکان پر جا کر اندر جانے کی اجازت طلب کروں تو وہ مجھے یہ جواب دیں کہ اس وقت نہیں ‘ پھر کسی وقت انشاء اللہ تو میں واپس آجاؤں اور نہایت خوش وخرم واپس آؤں کہ مجھے اس آیت پر عمل کرنے کا موقع میسر آگیا اور میں پھر کسی وقت جا کر ان سے ملاقات کروں ۔ یاد رہے کہ اجازت طلب کرنے کے حکم سے صرف یہ صورت مستثنی ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آجائے جیسے آگ لگ جائے یا کوئی چور گھس آئے یا اس طرح کا کوئی ہنگامہ بپا ہوجائے تو مدد کے لئے پہنچنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ۔ یہاں تک کہ تو گھر کے اندر رہ کر پردے کے احکام بیان کئے گئے اور آئندہ آنے والی آیات میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر عورت اور مرد کی ملاقات بازار میں ہوجائے ‘ عید گاہ یا مجلس علمی میں ان کو شرکت کا موقع ملے یا میدان جنگ میں آمنا سامنا ہو تو دونوں میں سے ہر ایک کو کیا حکم ہے اور یہاں پردے کی کیا صورت ہوگی ۔
Top