Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 86
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ : ساتھی (والے) الْجَحِيْمِ : دوزخ
لیکن جن لوگوں نے انکار کیا اور ہماری آیتوں کو (سرکشی اور عناد سے) جھٹلایا تو وہ دوزخی ہیں
منکرین کیلئے دوزخ کی مہمانی لازم قرار پائی : 211: ہر عمل کا بدلہ موجود ہے کیونکہ بدلہ نتیجہ ہی کو کہا جاتا ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عمل ہو اور اس کا نتیجہ نہ ہو اور یہ بھی کہ جیسا عمل ہو ویسا ہی اس کا نتیجہ بھی۔ اگر نیک عمل کا نتیجہ جنت ہے تو بدعملی کا نتیجہ دوزخ ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص بدعملیوں پر بدعملیاں کرتا جائے اور وہ ان کے نتیجہ سے دوچار نہ ہو۔ یہی حال منافقانہ اظہار ایمان کا ہے جس کی تہہ میں فی الواقع تصدیق ، تسلیم ، اخلاص اور اطاعت نہ ہو اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان اللہ اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دلچسپیوں کو عزیز تر رکھتا ہو۔ اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے۔ اللہ کے ہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہوگا چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھہرائے جاسکتے ہوں یا ان کو کافرنہ ٹھہراناچاہئے اور اس جگہ ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے۔ لیکن عند اللہ وہ کفر کے نظام کے بندے ہیں اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جانا ضروری ہے جو کافروں کے ساتھ ہوگا بلکہ ان سے بھی وہ زیادہ عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہریں گے اور دوزخ ان کی مہمانی کیلئے کافی ہوگا جس میں ابدالاباد ان کا ٹھکانہ لازم و ضروری ہے اور زیر نظر آیت میں یہی اعلان کیا جا رہا ہے۔
Top