Aasan Quran - Al-Kahf : 86
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا١ؕ۬ قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَغْرِبَ : غروب ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے پایا اسے تَغْرُبُ : ڈوب رہا ہے فِيْ : میں عَيْنٍ : چشمہ۔ ندی حَمِئَةٍ : دلدل وَّوَجَدَ : اور اس نے پایا عِنْدَهَا : اس کے نزدیک قَوْمًا : ایک قوم قُلْنَا : ہم نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِمَّآ : یا چاہے اَنْ : یہ کہ تُعَذِّبَ : تو سزا دے وَاِمَّآ : اور یا چاہے اَنْ : یہ کہ تَتَّخِذَ : تو اختیار کرے فِيْهِمْ : ان میں سے حُسْنًا : کوئی بھلائی
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے تو انہیں دکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ (43) اور وہاں انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے (ان سے) کہا : اے ذوالقرنین ! (تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو ، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو۔ (44)
43:: یہ ان کے پہلے سفر کا ذکر ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت مغرب میں دنیا کی جو آخری آبادی تھی، ذوالقرنین وہاں تک پہنچے، وہ ایسی جگہ تھی کہ اس کے بعد کوئی آبادی نہیں تھی، اور حد نظر تک سمندر پھیلا ہوا تھا، اور سمندر کی شکل بھی ایک سیاہ رنگ کی دلدل جیسی تھی اور شام کے وقت جب سورج غروب ہوتا تو دیکھنے والے کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دلدل نما چشمے میں ڈدب رہا ہے۔ 44: اس علاقے میں کافر لوگ آباد تھے، اور حضرت ذوالقرنین نے اسے فتح کرلیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو دوسرے فاتحوں کی طرح تم بھی ان لوگوں کو قتل عام کرکے تکلیف میں مبتلا کرسکتے ہو، اور اگر چاہو تو ان کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرسکتے ہو، دوسری صورت کو اچھا رویہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا کہ یہ صورت بہتر ہے۔ ذوالقرنین کے بارے میں یہ بات یقینی نہیں ہے کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں، اگر وہ پیغمبر تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان سے براہ راست وحی کے ذریعے فرمائی ہوگی، اور وہ پیغمبر نہیں تھے، تو ان کو اس زمانے کے کسی پیغمبر کے ذریعے یہ بات پہنچائی ہوگی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وحی کے بجائے الہام کے ذریعے ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہوگی واللہ اعلم۔
Top