Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 43
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا١ؕ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ۙ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠   ۧ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَسْتَ : تو نہیں مُرْسَلًا : رسول قُلْ : آپ کہ دیں كَفٰى : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًۢا : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَمَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس عِلْمُ الْكِتٰبِ : کتاب کا علم
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ منکرین حق کہتے ہیں کہ تو اللہ کا بھیجا ہوا نہیں تو کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے اور اس کی جس کے پاس کتاب کا علم ہے
پیغمبر اسلام کا دعویٰ تم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ‘ انجام سچائی کو ظاہر کر دے گا 67 ؎ اب غور کرو کہ حق و باطل کی موجودہ آویزش کا نقطہ نزاع کیا ہے ؟ فرمایا تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہو ‘ منکر کہتے ہیں نہیں ‘ تم بھیجے ہوئے نہیں۔ اب قانون قضا بالحق کے مطابق فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی شہادت بس کرتی ہے۔ اللہ کی شہادت کیا ہے ؟ فرمایا اس کا مقصود بھی قضائے بالحق ہے اور بقاء انفع کے قانون کا نفاذ ہے جو ظاہر ہو کر بتلا دیتا ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا اور باطل کا کون پرستار تھا اور اس گواہی اور شہادت کیلئے آپ کی امانت و دیانت اور صداقت ‘ پاکبازی ‘ پارسائی ہے جو آپ ﷺ کی عملی زندگی کے گوشہ گوشہ سے ظاہر ہو رہی ہے ۔ اہل کتاب کا نظریہ یہ تھا کہ ایک پیغمبر آخر الزمان کا آنا درست ہے اور گزشتہ کتابیں اس کی گواہی دیتی ہیں لیکن جب وہ موعود نبی و رسول آگیا تو کہنے لگے کہ کہ ” لست مرسلا “ کہ تم وہ پیغمبر مرسل نہیں ہو اور تمہارا دعویٰ نبوت صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا یہ بات ہمیشہ بہت دفعہ بیان کی جا چکی ہے کہ ان کے انکار کا باعث اس وجہ سے تھا کہ آنے والا نبی و رسول بنی اسماعیل سے کیوں ہے اور اس کا حسب و نسب بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ؟ ورنہ محض مشرکوں کے جواب میں اہل کتاب کی شہادت پیش کرنا لا حاصل تھا۔ اس مضمون پر سورة ” رعد “ ختم ہو رہی ہے اور اب سورة ابراہیم شروع ہوگی۔ انشاء اللہ۔
Top