Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 43
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا١ؕ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ۙ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠   ۧ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَسْتَ : تو نہیں مُرْسَلًا : رسول قُلْ : آپ کہ دیں كَفٰى : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًۢا : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَمَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس عِلْمُ الْكِتٰبِ : کتاب کا علم
اور کافر کہتے ہیں کہ آپ بھیجے ہوئے نہیں ہیں آپ کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے، بہ طور گواہ کے کافی ہیں،85۔
85۔ (آیت) ” ومن عندہ ام الکتب “۔ یعنی محققین اہل کتاب۔ ھم اھل الکتاب من الیھود والنصاری (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ اناس من اھل الکتاب۔ کانوا یشھدون بالحق ویقرون بہ (ابن جریر عن قتادہ) اللہ کی گواہی تو وہ ہوئی جو آپ ﷺ کی امانت سے، دیانت سے، صداقت سے، پاکبازی وپارسائی سے، غرض آپ ﷺ کی عملی زندگی کے گوشہ گوشہ سے ظاہر ہورہی تھی، اور اہل کتاب کی گواہی سے اشارہ ہے ان پیشگوئیوں اور بشارتوں کی طرف جو آپ ﷺ کے متعلق کتب سابق میں موجود تھیں۔ (آیت) ” یقول الذین کفروا “۔ یہ کہنے والے اہل کتاب ہی تھے۔ قیل قالہ رؤساء الیھود (روح) قرآن مجید کی انداز بیان خود کہے دے رہا ہے کہ اہل کتاب ہی مراد ہیں، وہی کہتے تھے کہ سلسلہ نبوت برحق، ایک پیغمبر آخر الزمان کا آنا درست لیکن (آیت) ” لست مرسلا “۔ تم وہ پیغمبر مرسل نہیں ہو، تمہارا دعوی نبوت صحیح نہیں، ، ، ورنہ محض مشرکوں کے جواب میں اہل کتاب کی شہادت پیش ہونا لاحاصل تھی :۔
Top