Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 43
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا١ؕ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ۙ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠   ۧ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَسْتَ : تو نہیں مُرْسَلًا : رسول قُلْ : آپ کہ دیں كَفٰى : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًۢا : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَمَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس عِلْمُ الْكِتٰبِ : کتاب کا علم
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم (خدا کے) رسول نہیں ہو۔ کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے گواہ کافی ہیں
ویقول الذین کفروا لست مرسلا وہ (کفار مکہ یا سرداران یہود) کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں۔ قل کفی باللہ شھیدا ابینی وبینکم آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری نبوت پر) اللہ کی شہادت کافی ہے۔ یعنی میری سچائی نبوت کیلئے اللہ کی شہادت کافی ہے۔ اس نے میری رسالت کی صداقت ایسے دلائل سے واضح کردی ہے کہ ان کے بعد کسی اور شاہد کی ضرورت نہیں اور وہی قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ اس روز ان منکروں کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ ومن عندہ علم الکتب اور ان لوگوں کی شہادت کافی ہے جن کے پاس (ا اللہ کی) کتابوں کا علم ہے۔ یعنی ایمان رکھنے والے اہل کتاب کی شہادت کافی ہے ‘ جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام وغیرہ۔ رہا کافروں کا انکار تو اس کی بناء محض حسد ‘ عناد اور مال و جاہ کی طلب پر ہے۔ حرص و ہوا اور حسد ان کو اقرار کرنے سے روک رہے ہیں۔ اس تفسیر کی بناء پر بعض علماء نے کہا کہ پوری سورت اگرچہ مکی ہے مگر یہ آیت مدنی ہے۔ شعبی اور ابو بشر نے آیت کی مندرجۂ بالا تفسیر کا انکار کیا ہے اور صراحت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور حضرت عبد اللہ بن سلام تو مدنی تھے ‘ ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے تھے ‘ ان کے حق میں آیت کا نزول نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں : آیت کو اگر ہم مکی ہی قرار دیں تب بھی آیت میں اہل کتاب مراد ہونا ناممکن نہیں ہے۔ گویا اللہ نے کفار مکہ سے فرمایا کہ اگر تم کو محمد ﷺ کی رسالت کا یقین نہیں ہے تو اہل کتاب سے دریافت کرلو ‘ معتبر اہل کتاب تصدیق کریں گے اور محمد ﷺ کی نبوت کی شہادت دیں گے۔ حسن اور مجاہد نے کہا : الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے اور مَنْ عِنْدَہٗ علیمُ الْکِتٰب سے مراد اللہ ہے۔ دونوں جملوں کو ملا کر یہ مطلب ہوگا کہ اس کی شہادت کافی ہے جو مستحق الوہیت ہے اور لوح محفوظ کی تحریر کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ‘ پس وہی جھوٹے کو سزا دے گا ‘ تم ہو یا میں ‘ ہم دونوں میں سے کوئی ہو۔ حسن اور سعید بن جبیر کی قراءت میں مِنْ عِنْدَہٗ بکسر میم آیا ہے ‘ اس قراءت سے بھی حسن و مجاہد کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
Top