Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 71
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍ١ؕ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا تم دیکھو تو اِنْ : اگر جَعَلَ : کردے (رکھے) اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمُ : تم پر الَّيْلَ : رات سَرْمَدًا : ہمیشہ اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : کون اِلٰهٌ : معبود غَيْرُ اللّٰهِ : اللہ کے سوا يَاْتِيْكُمْ : لے آئے تمہارے پاس بِضِيَآءٍ : روشنی اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ : تو کیا تم سنتے نہیں
کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو خدا کے سوا کون معبود ہے جو تم کو روشنی لادے ؟ تو کیا تم سنتے نہیں
(28:71) ارأیتم۔ لفظی معنی ہوں گے کیا تم نے دیکھا۔ الاتقان میں ہے کہ جب ہمزہ استفہام رأیت پر داخل ہوتا ہے تو اس حالت میں رویت کا آنکھوں یا دل سے دیکھنے کے معنی میں آنا ممنوع ہے۔ اور اس کے معنی اخبرنی (مجھ کو خبر دو ) کے ہوتے ہیں۔ ارأیتم۔ بھلا یہ تو بتاؤ ۔ مجھے بتاؤ تو۔ سرمدا۔ ہمیشہ۔ دائم۔ منصوب بوجہ جعل کے مفعول ثانی ہونے کے یا بوجہ الیل کے حال ہونے کے۔ افلا تسمعون۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہےکا عطف محذوف پر ہے گویا آیت کی تقدیر یوں ہے۔ الا تدبرون الا تسمعون تو کیا تم سوچتے نہیں اور سنتے نہیں۔
Top