بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 1
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
اے نبی ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور نہ کہا مانیں آپ کافروں اور منافقوں کا۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
کوائف : اس سورة کا نام سورة الاحزاب ہے جو کہ اس کی بیسیویں اور اکیسویں آیت میں آمدہ اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ احزاب جمع ہے حزب کی۔ جس کا معنی گروہ ، جماعت یا پارٹی ہوتا ہے۔ اس سورة میں ان غیر مسلم گروہوں کا ذکر ہے جو مسلمانوں کے خلاف جمع ہو کر سن 5 ء میں مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس سے پہلے سورة الفرقان سے لے کر سورة السجدۃ تک مکی سورتیں تھیں۔ سورة نور کے بعد اب یہ سورة پھر مدنی سورة ہے۔ اس سورة مبارکہ کی تہتر 37 آیات اور نو رکوع ہیں۔ یہ سورة 2821 الفاظ اور 0075 حروف پر مشتمل ہے۔ نزول : جیسا کہ میں نے عرض کیا غزوہ احزاب سن 5 ھ میں واقع ہوا تھا اور اس کے بعد یہ سورة نازل ہوئی کیونکہ اس میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے۔ اگرچہ امام بخاری کی تحقیق کے مطابق غزوہ احزاب سن 4 ھ میں واقعہ ہوا۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ یہ غزوہ سن 5 ھ میں واقع ہوا۔ اس جنگ میں کفار ، مشرکین ، یہودی اور منافقین سب نے اکٹھ کرلیا تھا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ مختلف تاریخی روایات کے مطابق اس موقع پر حملہ آوروں کی تعداد پندرہ ہزار سے لے کر پچیس ہزار تک بتائی جاتی ہے جب کہ قابل جنگ مسلمانوں کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔ اسی موقع پر مسلمانوں نے مدینہ کے اردگرد خندق بھی کھودی تھی اور کفار و مشرکین کے خلاف دفاعی جنگ لڑی تھی۔ اس لحاظ سے اسے جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ مضامین سورة : مکی سورتوں میں عام طور پر بنیادی عقائد کا ذکر ملتا ہے جبکہ مدنی سورتوں میں میں زیادہ تر احکام ہوتے ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں بھی بہت سے معاشرتی احکام بیان کیے گئے ہیں اور اس سورة کے ذریعے زمانہ جاہلیت کی بہت سی رسموں کو ختم کیا گیا ہے۔ عورتوں سے متعلق طلاق اور عدت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کی ازواج مطہرات کی خصوصیات اور عام مومنہ عورتوں کے بعض مسائل بیان ہوئے ہیں۔ مشرکین متبنی یعنی منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کے حقوق دیتے تھے ، جب کہ اللہ نے اس کا رد کیا ہے۔ خاص طور پر متبنی کی بیوی سے نکاح کا مسئلہ بھی آگیا ہے۔ عورتوں کے لیے پردے کے احکام نازل کیے گئے ہیں۔ بعض تعزیری احکام بھی آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ذکر توحید اور ختم نبوت کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ منافقین کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قیامت اور محاسبہ اعمال کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ اس سورة مبارکہ کا ایک خاص موضوع پیغمبر ﷺ کے آداب ہیں ، آپ کی تعظیم و توقیر کا خصوصی ذکر ہے۔ آپ کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ ہے۔ آپ کے لیے چار سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت کا ذکر ہے اور آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : اس سورة مبارکہ کی سابقہ سورة السجدۃ کے ساتھ یہ مناسبت ہے کہ سابقہ سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور عام مومنین کے لئے تسلی کا مضمون بیان کیا تھا کہ آپ اپنے مخالفین کے پراپیگنڈا سے متاثر نہ ہوں۔ بلکہ صبر کا دامن تھامے رکھیں ، اپنا کام کرتے رہیں اور نتائج کا انتظار کریں اب اس سورة کی ابتداء ہی اللہ تعالیٰ نے تسلی کے مضمون سے کی ہے۔ شرف خاتم النبیین : اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسانوں کو مختلف طریقوں سے خطاب فرمایا ہے جہاں عام مومنوں سے خطاب مطلوب ہوتا ہے وہاں یایھا الذین امنو کے الفاظ آتے ہیں اور جہاں پوری بنی نوع انسان کی توجہ مطلوب ہوتی وہاں یایھا الناس کہہ کر خطاب کیا جاتا ہے۔ البتہ جہاں خصوصی احکام بیان کرنا مقصود ہوتا ہے یا تسلی دینا مطلوب ہوتا ہے تو وہاں پر خاص طور پر نبی (علیہ السلام) کو خطاب کیا جاتا ہے۔ اس مقام پر بھی پیغمبر (علیہ السلام) کو خصوصی خطاب ہے۔ یایھا النبی اے نبی ﷺ مفسرین کرام ایسے ہی خطابات سے یہ نقطہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں جہاں دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو خطاب کیا گیا ہے وہاں ان کے نام لے کر خطاب کیا گیا ہے۔ جب کہ حضور ﷺ کو نام لیے بغیر نبی اور رسول کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی تعظیم اور اکرام حددرجہ محبوب ہے۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں خطاب کے علاوہ بھی حضور ﷺ کا نام لیا گیا ہے۔ تو وہاں بھی آپ کی عظمت و شرف ہی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم (آل عمران 044) اور نہیں ہیں محمد مگر اللہ کے رسول۔ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس آپ طبعی زندگی گزار کر فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم دین چھوڑ دوگے ؟ یہاں پر لفظ محمد نکرہ لا کر آپ کی عزت و توقیر کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورة محمد میں مومنوں کے متعلق فرمایا کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے وامنوا بما نزل علی محمد (آیت 02) اور اس چیز پر ایمان لائے جو حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ یہاں پر بھی آپ کی شان و عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ بہرحال قرآن پاک میں جہاں بھی آپ کو خطاب کیا گیا ہے یا آپ کا نام لیا گیا ہے تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ لیا گیا ہے۔ خوف خدا : اللہ تعالیٰ نے نبی (علیہ السلام) کو خطاب کر کے فرمایا اتق اللہ آپ اللہ سے ڈرتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کی زندگی کا لمحہ بھر بھی خوف خدا سے خالی نہیں ہوتا مگر یہاں اسی بات کی تلقین کی گئی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدا کے خوف پر ٭ اختیار کریں اور اس پر قائم رہیں۔ پہلے کی طرح خوف خدا کو دل میں جاگزیں رکھیں ولا تطع الکفرین والمنفقین اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانیں۔ وہ جس نہج پر آپ کو چلانا چاہتے ہیں۔ آپ اس سے بچتے رہیں اور تقویٰ پر قائم رہیں۔ نبی کی ذات سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت خوف خدا سے خالی بھی ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے نبی (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا لئن اشرکت لیحبطن عملک (الزمر۔ 56) اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو سارے عمل ضائع ہوجائیں گے کہ شرک اتنی بری چیز ہے۔ یہاں بھی وہی بات ہے بھلا اللہ کے نبی سے شرک کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ جب کہ اس کا اولین منصب ہی یہ ہے کہ لوگوں کو شرک سے باز رکھے۔ مطلب یہی ہے کہ جس طرح آپ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم ہیں اسی طرح اس پر قائم رہیں۔ یہاں بھی خوف خدا پر مداومت اختیار کرنے کا حکم ہے۔ امام ابن کثیر (رح) 1 ؎ اور بعض دوسرے مفسرین نے ایک بزرگ طلق ابن حبیب (رح) سے تقویٰ کا یہ معنی نقل کیا ہے ان تعمل بطاعۃ اللہ علی نور من نور اللہ وترجوا ثواب اللہ وتترک معصیۃ اللہ علی نور من اللہ مخافۃ عذاب اللہ کہ اللہ کی عطا کردہ روشنی کے تحت اللہ کی اطاعت پر عمل کرتے رہیں ، اللہ سے ثواب کی امید رکھیں اور اللہ کی معصیت کو ترک کردیں اس نور ایمان اور نور ہدایت کے ذریعے جو اللہ نے عطا کیا ہے اور خدا کے عذاب سے برابر ڈرتے رہیں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے ڈرتے رہیں اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں۔ مداہنت کی ممانعت : مکی زندگی میں کفار و مشرکین حضور ﷺ سے سودے بازی کرنا چاہتے تھے اور ان کی یہ پیشکش مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں بھی ہوتی رہی کہ آپ اپنے دین میں کچھ نرمی کرلیں تو ہم بھی کسی قدر نرم پڑجائیں گے اور اس طرح ہمارا اور آآپ کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ سورة القلم میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یاد دلایا ہے۔ ودوالوتد ھن فیومنون (آیت۔ 9) کہ کافر چاہتے ہیں کہ آپ کچھ ڈھیلے پڑجائیں۔ تو وہ بھی نرم پڑجائیں گے۔ کافر چاہتے تھے کہ آپ ہمارے معبودود کی ندمت نہ کریں بلکہ تھوڑی بہت ان کی تعریف کردیا کریں اور اس بات کو تسلیم کرلیں کہ یہ اللہ کے ہاں سفارشی ہیں تو ہم بھی آپ کے معبود کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے اور نہ آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو تنگ کریں گے ، منافق لوگ دوسرے طریقے سے کفار کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے ، وہ کہتے کہ ا گر مشرکوں کے ساتھ اس قسم کا امن سمجھوتہ ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے ؟ لوگ امن وامان کی زندگی بسر کریں گے جنگ و جدل پر توانائی صرف کرنے کی بجائے لوگوں کی حالت بہتر بنائی جاسکے گی اور اسلام کو بھی تقویت حاصل ہوگی مگر اللہ نے واضح فرما دیا کہ عقیدے کے اظہار میں کسی قسم کی رورعایت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کسی قیمت پر کافروں اور مشرکوں سے کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ دین کے معاملہ میں ڈھیلا پڑجانا مداہنیت کہلاتا ہے جو کسی صورت میں بھی جائز نہیں ، خوش اخلاقی اور معاشرتی تعلقات مختلف چیزیں ہیں مگر دین کے معاملے میں کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی کہ دین کی حقیقت کو ہی چھپا دیا جائے۔ اس ضمن میں نہ خوف کام کرسکتا ہے اور نہ لالچ کارگر ہو سکتا ہے۔ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا ذاتی مفاد ہرگز پیش نظر نہیں رکھا جائے گا۔ اس مقام پر بھی اللہ نے اسی بات کو دہرایا ہے کہ آپ کافروں اور منافقوں کی پیش کش کو قبول نہ کریں ، بلکہ بلاخوف و خطر اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں۔ شرک کی تردید کریں مگر احسن طریقے سے ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ (الانعام۔ 901) جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو گالی نہ دیں کہ یہ بداخلاقی کی بات ہے۔ دلیل کے ساتھ کفر و شرک کا رد کریں کہ اللہ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں اور نہ کوئی سفارش کرسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے۔ (حاثیہ : 1 ؎ ابن کثیر ص 564 ج 3 فیاض) مفسرین کرام 1 ؎ فرماتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں کسی کافر ، مشرک اور ملحد کی بات نہیں مانی جاسکتی ، نہ ان سے مشورہ لیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ اس کے اہل ہی نہیں مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں قانون سازی کے لیے غیر مسلموں ، عیسائیوں اور یہودیوں اور دہریوں سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ تو تمہیں اپنا ہی قانون بتائیں گے اور اس طرح تمہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ دیکھئے ! اسلام نے سود کو قطعاً حرام قرار دیا ہے۔ مگر ہماری ساری بینکاری سودی نظام پر چل رہی ہے جب بھی سودی نظام کو ختم کرنے کی آواز بلند ہوتی ہے۔ تو پھر مشورہ غیر مسلموں سے ہی لیا جاتا ہے کہ بتائو ہم سودی نظام کو اسلامی نظام میں کیسے تبدیل کریں۔ یہی توخرابی ہے جو ہمیں اسلامی قوانین رائج کرنے میں پیش آ رہی ہے۔ ہاں البتہ عام دنیوی لینن دین ، تجارت اور انتظامی امور کے متعلق ہر اچھی رائے کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ خواہ وہ کسی طرف سے آئے مگر دین کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ چار اعدائے دین : شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں 2 ؎ کہ اعدائے دین چار ہیں جن میں سے دو ظاہری ہیں اور دو باطنی ، ظاہری دشمن تو یہی کافر اور منافق ہیں جن سے اس آیت کریمہ میں بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کافر کھلم کھلا اسلام دشمنی کرتے ہیں جبکہ منافق درپردہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے ہیں۔ دین کے باطنی دشمنوں میں پہلے نمبر پر شیطان ہے جو نظر تو نہیں آتا مگر انسانی دل و دماغ میں وسوسہ ڈال کر اس کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا تھا کہ میں تیرے بندوں کو آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے آ کر بہکائوں گا۔ میں ان کو دین کے معاملہ میں گمراہ کروں گا۔ ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں مزین کر کے دکھائوں گا اور دنیوی معاملات میں ان کو بہکا پھسلا کر برائی کی طرف مائل کروں گا۔ ایسے دشمن سے چوکنا رہنا بھھی ضروری ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کا دوسرا باطنی دشمن خود اس کا اپنا نفس ہے ان النفس لا مارہ بالسوء (یوسف 035) خود انسان کا نفس بھی اسے برائی پر آمادہ کرتان ہے۔ لہٰذا اس کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔ جو شخص ان چاراعدائے دین سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ فرمایا آپ کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں ان اللہ کان علیما حکیماً بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ وہ کافروں اور منافقوں کی تمام خفیہ تدبیروں کو جانتا ہے اور آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے ، وہ حکمت سے خالی نہیں ، لہٰذا آپ اس پر سختی سے عمل کریں۔ اتباع وحی : ارشاد ہوتا ہے کہ کفار و منافقین کی بات ماننے کی بجائے واتبع ما یوحی الیک من ربک آپ اس چیز کی اتباع کریں جو آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے وحی کی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و شرائع کی پیروی کریں۔ یہاں پر خطاب تو پیغمبر (علیہ السلام) سے ہے مگر مراد سارے اہل ایمان ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ اولیاء (الاعراف 03) اے ایمان والو ! تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونیوالی وحی کا اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا اتباع نہ کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو گمراہ ہو جائو گے۔ دین کا اساسی قانون قرآن ہے۔ اس کی شرح سنت میں ہے اور مزید وضاحت صحابہ کرام ؓ کے عمل اور آئمہ مجتہدین کی تشریح میں ہے ، اتباع میں یہ سب چیزیں آجائیں گی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت ہے اور اس پر عمل کرنے کے لیے صحابہ کرام ؓ عملی نمونہ ہیں ، اس کے بعد جو وضاحت طلب باتیں رہ جاتی ہیں ان کو مجتہدین واضح کردیتے ہیں اور یہی مکمل دین قابل اتباع ہے۔ (حاشیہ : روح المعانی ص 241 ج 12 و مظہری ص 303 ج 7 ، 2 ؎ فیاض) گمراہ کن لیڈر : مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان وغیرہ کے لوگ بڑے اچھے ہیں مگر انہیں ہمیشہ لیڈر ہی گمراہ کرتے ہیں جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو یہ نام نہاد لیڈر طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر عوام کو اپنے پیچھے لگا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسلام کے یہ نام لیوا بھلا کون سا اسلامی قانون لائیں گے ، یہ تو اسلام کی مبادیات سے بھی واقف نہیں۔ پارلیمنٹ کا ممبر تو وہ آدمی بننا چاہئیے جو اللہ کی کتاب ، اس کے رسول کی سنت اور خلفائے راشدین کے عممل کو جاننے والا ہو۔ ان چیزوں سے بےبہرہ لوگ اسلام کی کیا نمائندگی کریں گے اور کون سا قانون پاس کریں گے ؟ ممبری کے قابل تو وہ شخص ہے جو دین کے اساسی قانون سے واقف ہو اور پھر اپنے اندر قربانی کا جذبہ بھی رکھتا ہو۔ ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کرے اگر یہ چیز نہیں ہے تو پھر عوام سے فراڈ ہی ہوتا رہے گا۔ لوگ پراپیگنڈا کے زور پر یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی فلاں آدمی یا جماعت ہماری نجات دہندہ ثابت ہوگی مگر وہ سراسر دھوکہ ہوتا ہے۔ مارشل لاء کے دور میں ہم نے کتنی بار کہا تھا کہ اب تمام اختیارات فرد واحد میں مرتکز ہوچکے ہیں۔ نام نہاد عوامی نمائندوں سے جان چھوٹ چکی ہے لہٰذا اب بلاحیل و حجت قرآن کا قانون نافذ کردینا چاہیے اور اس کے مخالفین کو تختہ دار پر چڑھا دو پھر دیکھیں کون مخالفت کرتا ہے۔ مگر ہماری یہ آواز بھی بیکار ثابت ہوئی۔ ا اسلام کے نام پر ریفرنڈم کرایا تھا اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ کیا واقعی اسلام نافذ ہوا ؟ اصل بات یہ ہے کہ نفاذ اسلام کا ارادہ ہی نہیں۔ ورنہ اس سے بہتر موقع کوئی نہیں آسکتا تھا مگر وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب پھر وہی نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ جس میں ووٹ خریدے جاتے ہیں اور پھر اسمبلی میں پہنچ کر سب سے پہلے الیکشن کے اخراجات کا دگنا چوگنا اکٹھا کیا جاتا ہے اور باقی وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اور اسلام کا محض نعرہ ہی رہ جاتا ہے ، اسے نافذ کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے خود ممبروں کے مفاد پر زد پڑتی ہے۔ مقصد یہ کہ خود ہمارے لیڈر ہی ہمیں گمراہ کر رہے ہیں وگرنہ نہ عوام میں تو کہیں نہ کہیں ایمان موجود ہے۔ اسلاف کی قربانیاں : ذرا اپنے اسلاف کے کردار پر نظر مار کر دیکھیں کہ انہوں نے دین کی خاطر کس قدر قربانیاں دیں اور آج ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ یہ ان قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہم تک پہنچا ہے وگرنہ یہ راستے میں ہی دم توڑ چکا ہوتا۔ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں خراسان میں جو جنگ ہونی تھی اس میں تین لاکھ کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف دس ہزار تھی مگر وہ تین لاکھ کی چٹان سے ٹکرا گئے حتیٰ کہ ان میں سے ایک مسلمان بھھی زندہ نہ بچا ، سب شہید ہوگئے۔ اس قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے بالآخر فتح دی اور چین تک کا علاقہ مسلمانوں کے زیرنکیں آگیا۔ مسلمانوں میں قربانی کا جذبہ اس قدر تھا کہ بعض نے کہا کہ ہماری لاشوں کو دفن کرنے کی بجائے کھلا چھوڑ دینا تاکہ پرندے اور جانور ہمیں کھا جائیں۔ ہم حشر کے دن پرندوں کے پیٹھوں سے برآمد ہونا پسند کریں گے کہ ہم نے اللہ کے دین کی خاطر ایسی ایسی قربانیاں پیش کیں۔ اس قسم کے واقعات فتوح البلدان میں مذکور ہیں۔ مصر کی فتح کے دوران مسلمانوں نے اس قدر قربانیاں دیں جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام آسانی سے آجائے گا۔ جب تک ذاتی اغراض آڑے آتی رہیں گی اسلام نافذ نہیں ہو سکتا۔ فرمایا صرف وحی الٰہی کا اتباع کریں ان اللہ کان بما تعمنون خبیرا بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے ہر کردہ کام کی خبر رکھنے والا ہے۔ کوئی چیز اس نے مخفی نہیں ہے۔ جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ادا کرے گا۔ توکل علی اللہ : فرمایا و توکل علی اللہ اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر کریں۔ تمام اسباب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں وہ جب چاہے گا انہیں موثر بنا دے گا یا غیر موثر کر دے گا۔ لہٰذا بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے کہ سبب الاسباب وہی ہے وکفی باللہ وکیلا اور کافی ہے اللہ کارساز وکیل کا معنی کام بنانے والا ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ سورة المزمل میں بھی فرمایا ، لا الہ ھو فاتخذہ وکیلا (آیت 09) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا کارساز بھی اسی کو سمجھھو۔ وہی بگڑی بنائے گا کہ سارا اختیار اسی کے پاس ہے۔ توحید خالص کو اپنائو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی صورت میں شرک نہ کرو۔ اس کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پروگرام کو جاری رکھو۔
Top