Ahkam-ul-Quran - Al-Muminoon : 7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ : پس جو ابْتَغٰى : چاہے وَرَآءَ : سوا ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْعٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں
نکاح متعہ کی تحریم قول باری ہے (فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العادون البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں) آیت نکاح متعہ کی تحریم کی مقتضی ہے اس لئے کہ متعہ کی بنا پر ہاتھ آنے والی عورت نہ تو بیوی ہوتی ہے اور نہ ہی ملک یمین کے تحت آنے والی مملوکہ ہم نے سورة نساء میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہ بحث قول باری (ورآء ذلک کی) کی تفسیر کے تحت کی گئی ہے۔ قول باری (ورآء ذلک) کا مفہوم ” غیر ذلک ‘ ہے یعنی ان کے ماسوا۔ قول باری (الحادون) سے مراد ایسے لوگ ہیں جو حلال سے حرام کی طرف تجاوز کریں۔ قول باری (الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم) اس جملہ سے استثناء جس میں شرمگاہوں کی حفاظت کا ذکر ہے اور اس قول کے ذریعے بیوی اور ملک یمین کے تحت آنے والی لونڈی سے ہمبستری کی اباحت کی خبر دی گئی ہے۔ اس لئے آیت ان دو صنفوں کے ماسوا تمام عورتوں سے جنسی تعلقات پر پابندی کی مقتضی ہے۔ اس کے ذریعے بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ ہمبستری کی اباحت پر دلالت ہو رہی ہے کیونکہ ان کے بارے میں لفظ کے اندر عموم ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ ہمبستری کی اباحت میں اگر عموم ہوتا تو حیض کی حالت میں ا نک یساتھ ہمبستری درست ہوتی، اسی طرح ظوہر والی لونڈی نیز شبہ کی بنا پر جماع کے نتیجے میں عدت گزارنے والی کے ساتھ بھی وطی کا جواز ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کے لفظ کا عموم تمام احوال میں مذکورہ عورتوں کے ساتھ وطی کے جواز کا مقتضی ہے تاہم ان کی تخصیص پر دلالت قائم ہوچکی ہے جس طرح عموم کی تمام صورتوں میں ہوتا ہے کہ اگر اس کے بعض افراد کی تخصیص کردی جائے تو یہ بات باقی ماندہ افراد میں عموم کے حکم کی بقاء کو مانع نہیں ہوتی۔ ملک یمین کا جب اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے مملوک غلام اور لونڈی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ ملک یمین کا اطلاق بنی آدم کے سوا کسی اور چیز پر نہیں ہوتا۔ مثلاً گھر اور سواری پر ملک یمین کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ اس لئے کہ غلام اور لونڈی کی ملکیت دوسری چیزوں کی ملکیت سے اخص ہوتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص اپنے گھر کو گرا سکتا ہے اور گرا کر اسے دوبارہ بنا سکتا ہے اس کام میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن آدم زادوں کے سلسلے میں وہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح وہ گھر کو عاریت کے طور پردے سکتا ہے، اپنی مملوکہ اشیاء کو بھی جسے چاہے دے سکتا ہے لیکن اگر وہ چاہے کہ اپنی مملوکہ لونڈی کی شرمگاہ کسی کو عاریت کے طور پردے دے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
Top