Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ
: پس جو
ابْتَغٰى
: چاہے
وَرَآءَ
: سوا
ذٰلِكَ
: اس
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
هُمُ
: وہ
الْعٰدُوْنَ
: حد سے بڑھنے والے
البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں،
7
سورة الْمُؤْمِنُوْن
7
یہ جملہ معترضہ ہے جو اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو " شرمگاہوں کی حفاظت " کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوت شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو، بہرحال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کردی جاتی کہ فلاح پانے والے اہل ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بند رہتے ہیں، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملہ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کردی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔ اس جملہ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔
1
شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ایک ازواج دوسرے مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ۔ " ازواج " کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ " بیوی " کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ، تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک میں ہو۔ اس طرح یہ آیت صاف تصریح کردیتی ہے کہ منکوحہ بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے، سورة نساء کی آیت وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَولاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ (آیت
25
) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی تحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کرلو۔ لیکن ان لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کرلے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا ان کے مدعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایات جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں۔ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بالْمَعْرُوْفِ۔ " پس ان (لونڈیوں) سے نکاح کرلو ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اور ان کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو "۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیر بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کرسکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہو تو اس کے وہ " اہل " (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو ؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف فَانْکِحُوْھُنَّ کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ سورة نساء، آیت
3
۔
25
سورة احزاب، آیت
50
۔
52
۔ اور سورة معارج، آیت
30
کو سورة مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، حاشیہ
44
۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ،
29
تا
324
۔ رسائل و مسائل، جلد اول، صفحہ
324
تا
323
)۔
2
اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ میں لفظ علیٰ اس بات کی صراحت کردیتا ہے کہ اس جملہ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر خٰلِدُوْنَ تک مذکر کی ضمیروں کے باوجود مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو ضمیر مذکر ہی استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے علیٰ کا لفظ استعمال کر کے یہ بات واضح کردی گئی کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر " ان پر " کہنے کے بجائے " ان سے " محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہوسکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہ، " اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا "۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے ؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اس حکم سے مستثنیٰ ہوگئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکم استثناء کا اثر عملاً صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہوجاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش نفس تو پوری کرسکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی رہ جاتی ہے۔
3
" البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں "، اس فقرے نے مذکورہ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہش نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کردیا، خواہ وہ زنا ہو، یا عمل قوم لوط یا وطی بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید (Masturbation) کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہوجائے تو امید ہے کہ معاف کردیا جائے گا۔
4
بعض مفسرین نے متعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ " بیوی " دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ " ان کے علاوہ کچھ اور " میں شمار ہوگی جس کے طالب کو قرآن " حد سے گزرنے والا " قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمت متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ اسے فتح مکہ تک جائز رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی ﷺ کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کردینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کردی جائے۔ اول یہ کہ اس کی حرمت خود نبی ﷺ سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر ؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضور ﷺ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اسے نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھہرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے اس کے لیے تو بہرحال نصوص کتاب و سنت میں سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صرف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس، جن کا نام قائلین جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ماھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اس وقت باز آگئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے کہ ابن عباس اور ان کے ہم خیال چند گنے چنے اصحاب نے اس مسلک سے رجوع کرلیا تھا یا نہیں، تو ان کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالت اضطرار کی حد تک جاسکتا ہے۔ مطلق اباحت، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوق سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمہ اہل بیت کو اس سے متہم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنا بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوش حال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کردیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بےعزتی بھی سمجھے اور بےحیائی بھی ؟
Top