Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 138
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ : پس جو ابْتَغٰى : چاہے وَرَآءَ : سوا ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْعٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں
فمن اتبغی ورآء ذلک فاولئک ہم العدون۔ پھر جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کے طلبگار ہوں گے تو وہ (حد شرعی سے) نکلنے والے ہیں۔ العادون یعنی ظلم اور زیادتی میں کامل ہیں ‘ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں اس آیت سے متعہ کرنے کی اجازت منسوخ ہوگئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ابتدائے اسلام میں عورتوں سے متعہ کرنا جائز تھا۔ کوئی شخص اجنبی شہر میں جاتا اور وہاں کوئی جان پہچان والا نہ ہوتا تو جس قدر قیام کا ارادہ ہوتا اتنی مدت کے لئے کسی عورت سے نکاح کرلیتا تاکہ عورت اس کے لئے کھانا تیار کر دے اور سامان کی حفاظت رکھے یہاں تک کہ جب آیت (اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ ) نازل ہوئی تو سوائے ان دونوں قسموں کے ہر عورت حرام ہوگئی۔ رواہ الترمذی۔ جن عورتوں سے متعہ کیا جاتا ہے۔ وہ بیویاں یقیناً نہیں ہوتیں۔ فرقۂ شیعہ کے نزدیک بھی نہ ان کو شوہر کی میراث ملتی ہے نہ شوہر کو ان کی میراث (اور باندیاں بھی یقیناً نہیں ہیں اور تیسری کوئی قسم حسب صراحت آیت حلال نہیں ہے) اور زوجین کے درمیان توارث صراحت قرآنی کے بموجب ضروری ہے۔ متعہ کا مسئلہ سورة نساء کی آیت ( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہّنَّ فَرِیْضَۃً ) کی تفسیر میں ہم نے مفصل بیان کردیا ہے۔ آیت مذکورہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ عمل بالید (جلق) بھی حرام ہے۔ عم علماء کا یہی قول ہے۔ ابن جریج کا قول ہے میں نے عطا سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا مکروہ ہے (یعنی مکروہ تحریمی جو حکم حرام میں ہوتا ہے۔ مترجم) عطاء نے کہا میں نے سنا کہ کچھ لوگوں کا حشر ایسی حالت میں ہوگا کہ ان کے ہاتھ حاملہ ہوں گے ‘ میرا خیال ہے کہ وہ یہی عمل کرنے والے ہوں گے۔ سعید بن جبیر نے کہا کچھ لوگ اپنے آلات مردمی سے خود کھیلتے تھے اللہ نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔
Top