Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 60
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے (کے شہر) میں بری بری خبریں اڑایا کرتے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو انکے پیچھے لگا دینگے پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن
قول باری ہے (لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینۃ لنغرینک بھم۔ اگر منافقین اور وہ لوگ باز نہ آئے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینہ میں افواہیں اڑایا کرتے ہیں تو ہم ضرور آپ کو ان پر مسلط کردیں گے) ۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے قتادہ سے کہ منافقین میں سے کچھ لوگوں نے اپنے نفاق کے اظہار کا ارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ قتادہ نے (لنغرینک ) کے معنی ” لنحر شنک “ (ہم آپ کو ابھاردیں گے) بیان کیے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے۔ ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے اور پھر یہ لوگ مدینہ کے اندر آپ کے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر بہت کم مدت کے لئے یعنی انہیں مدینہ سے جلاوطن کردیا جائے گا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے اور ان افواہوں کے ذریعے انہیں پریشان کرنے اور ایذا پہنچانے کی سزا تعزیر ہے۔ اور اگر افواہیں پھیلانے والے اس کے باوجود بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو انہیں جلاوطن کردیا جائے۔ منافقین اور دین میں بصیرت نہ رکھنے والوں کا ایک ٹولہ تھا جو دل کے روگ میں مبتلا تھا یعنی وہ ضعف ایمان ویقین کی بیماری میں مبتلا تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ مشرکین اور کفار کے جمع ہوجانے کی افواہیں اڑایا کرتے تھے، اور یہ کہتے پھرتے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے چل پڑے ہیں۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے سامنے مشرکین کی طاقت وقوت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور انہیں ہراساں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرما کر واضح کردیا کہ اگر یہ لوگ باز نہ آئیں تو جلاوطنی اور قتل کے سزاوار ہوں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ یہی اللہ کی سنت ہے۔ یعنی یہی وہ طریقہ ہے جس کی پیروی اور لزوم کا حکم دیا گیا ہے۔ قول باری (ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ اور آپ اللہ کے دستور میں ردوبدل نہ پائیں گے) یعنی۔ واللہ اعلم۔ کسی شخص کے اندر اللہ کے دستور اور اس کے طریقے کو بدل ڈالنے اور اسے باطل کردینے کی ہمت وطاقت نہیں ہے۔
Top