Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
مگر اس کے نفس نے اس کو بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اسے قتل کردیا اور خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگیا۔
قول باری ہے (فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لئے آسان کردیا) مجاہد کا قول ہے ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کا معاملہ بڑے مسجع اور منقش انداز میں پیش کیا۔ قتادہ کا قول ہے۔ ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے سامنے مزین کر کے پیش کیا “ ایک قول ہے۔ اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کے معاملے میں اس کی مساعدت کی “ تمام اقوال میں ایک معنی مشترک ہے وہ یہ کہ اس نے بخوشی اس قتل کا ارتکاب کیا تھا اس کام کو اس نے ناپسند نہیں کیا تھا۔ ایک قول ہے کہ عرب کہتے ہیں ” طاع لھذہ الظبیۃ اصول الشجر یا ” طاع لفادن “ (درختوں کی جڑیں اس ہرنی کے لئے خود بخود فرمانبردار ہوگئیں، یا وہ فلاں شخص کا فرمانبردار ہوگیا) یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی کسی کے پاس بخوشی آیا ہو۔ ” انطاع “ کے معنی ہیں ” انقاد “ (فرمانبردار ہوگیا) ۔ اسی مفہوم کی بنا پر محاورے میں ” طوعت لۃ نفسہ “ کہا جاتا ہے ” اطاعتہ نفسہ “ نہیں کہا جاتا۔ اس لئے کہ لفظ ” اطاع “ اطاعت کرنے والے کے ارادے کا مقتضیٰ ہے جو وہ امر اور حکم کے مفہوم کو بجا لانے کے لئے کرتا ہے، یہ بات حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے دل میں موجود نہیں تھی جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا۔ لیکن ” طوع “ کے لفظ میں یہ مفہوم پایا نہیں جاتا۔ اس لئے کہ یہ لفظ کسی امر اور حکم کا مقتضیٰ نہیں ہوتا۔ نیز یہ جائز بھی نہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کو کسی کام کا امر کرے یا کسی کام سے رک جانے کا حکم دے اس لئے کہ امر اور نہی میں اصل بات یہ ہے کہ امر یا نہی کرنے والا مرتبے میں اس سے اونچا ہو جسے یہ امر یا نہی کر رہا ہے۔ لیکن کبھی یہ درست ہوتا ہے کسی انسان کی طرف ایسے فعل کی نسبت کردی جائے جو اس کی ذات کو شامل ہو کسی اور کی طرف متعدی نہ ہو مثلاً آپ یہ کہیں ” حرک نفسہ “ یا ” قتل نفسہ “ (اس نے اپنے آپ کو بلایا یا اس نے اپنے آپ کو قتل کردیا) جس طرح یہ کہنا درست ہے ” حرک غیرہ “ یا ” قتل غیرہ “ (اس نے دوسرے شخص کو بلایا یا دوسرے شخص کو قتل کردیا) قول باری ہے (فاصبح من الخاسرین پس وہ ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں) یعنی اس نے اسے قتل کر کے اپنی ذات کا نقصان اٹھایا۔ قول باری ہے (ان الخاسرین الذین خسروا انفسھم و اھلیھم یوم القیامۃ۔ بیشک نقصان اٹھانے والے لوگ وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے اہل و عیال کا نقصان اٹھائیں گے۔ قول باری (فاصبح من الخاسرین) میں کوئی دلالت نہیں کہ قتل کا یہ وقوعہ رات کے وقت ہوا تھا بلکہ اس سے ایک مبہم وقت مراد ہے ہوسکتا ہے کہ یہ رات کا وقت ہو اور ہوسکتا ہے کہ دن کا وقت ہو۔ جس طرح شاعر کا قول ہے۔ اصبحت عاذلتی معتلہ مجھے ملامت کرنے والی عورت بیمار پڑگئی۔ یہاں صرف دن کا وقت مراد نہیں ہے رات کا وقت بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے۔ بکدت علی عواذلی یلحیننی والومھنہ میری ملامت گر عورتوں نے میری کھال اتارنی شروع کردی یعنی بہت زیادہ ملامت شروع کردی اور اس کے جواب میں بھی انہیں صلوٰتیں سناتا رہا۔ یہاں شاعر نے لفظ ’ بکرت ‘ سے دن کا ابتدائی حصہ یعنی سویرا مراد نہیں لیا، اس لفظ سے دن کا آخری حصہ یا کوئی اور حصہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ عرب کے لوگ عام طور پر ایسے الفاظ کا اطلاق کر کے مبہم وقت مراد لیتے تھے۔
Top