Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
پھر ایسا ہوا کہ اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا ، اس نے اسے قتل کردیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ یعنی قاتل تباہ کاروں میں سے ہو گیا
انجام کار قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا جس سے وہ خود ہی تباہ و برباد ہوا : 101: ہابیل کی کتنی موثر تقریر تھی جو اس نے کی اور کتنا پیار انداز تفہیم تھا جوا س نے اختیار کیا لیکن قابیل کی شقاوت و قساوت قلبی کا یہ عالم تھا کہ اس پر ذرا بھی اثر نہ ہو بلکہ مقابلہ ومزاحمت کی طرف سے بےفکر ہو کر قتل پر اور بھی زیادہ آمادہ ہوگیا اور انجام کار موقع پا کر اس کو قتل کر ہی دیاجیسا کہ تورات میں بھی ہے کہ ” اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قائن اپنے بھائی ہابیل پر اٹھا اور اسے مار ڈالا۔ “ (پیدائش 4 : 8) زیر نظر آیت میں ہے کہ ” پھر ایسا ہوا کہ اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا ، تو اس نے اسے قتل کردیا۔ “ یعنی اسے نفس نے اس کام پر رفتہ رفتہ دلیر اور مستعد بنا دیا اور اسے اس کی نظر میں خوشگوار کر دکھایا۔ (ابن کثیر) اور یہی حال ہر بدی و معصیت کا ہے ابتداً ہر فطرت سلیم اس سے رکتی ہے ، ہچکچاتی ہے لیکن نفس رفتہ رفتہ اس کی جانب مائل اور اس پر گرویدہ ہوتا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی مضرت اس کے ذہن سے ختم ہوجاتی ہے اور اس کو نفع ہی نفع دکھائی دیتا ہے جس کو ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ ” فلان آدمی کو اس کی خواہش نے اندھا کردیا ہے۔ “ قابیل کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور اس نے جس برائی کا ارادہ کیا تھا اس کو بےدھڑک کردیا۔ لیکن نتیجہ کیا رہا کہ ہابیل نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور ابدالاباد تک زندگی اختیار کرلی جو زندگی اس دنیا کے متعلق تو نہیں لیکن آخرت کی ساری کامیابیاں اس کے حصے میں آئیں جب تک زندہ رہا کف افسوس ملتا رہا اور یقیناً دنیوی سزا کا سامنا بھی اس کو ہوا ہوگا اور اپنی آخرت تو اس نے سو فیصد اپنے ہی ہاتھوں تباہ برباد کرلی جس کی شہادت آج بھی قرآن کریم دے رہا ہے اور یہی حال ہر مجرم کا ہے خواہ مجرم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم نے فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0030 کے الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ ” نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ یعنی قاتل تباہ کاروں میں سے ہوگیا۔ “ گویا الفاظ اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس طرح کی کشمکش ہیں جب انسان مبتلا ہوتا ہے تو ہر انسان کے سامنے آزمائش کا ایک میدان کھل جاتا ہے جس میں اس کے لئے نامرادی اور فتح مندی دونوں کا امکان موجود ہوتا ہے اگر انسان اس کشمکش میں اپنے نفس کو زیر کرلیے تو فتح مند رہتا ہے اور اس کا نفس جو اس وقت صحیح معنوں میں اس کا دشمن ہوتا ہے شکست کھا جاتا ہے اور اگر نفس اس کو زیر کرلے تو بلاشبہ اس کا نفس فتح مند رہتا ہے گویا اس طرح اس کا دشمن اس پر غلبہ پا جاتا ہے اور وہ خود نامراد ہوجاتا ہے ۔ یہی صورت حال قابیل کے ساتھ ہوئی اس کا نفس اس پر غالب آگیا اس وجہ سے وہ نامراد ہو کر تباہ کاروں میں شامل ہوگیا۔
Top