Al-Qurtubi - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
مگر اس کے نفس نے اس کو بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اسے قتل کردیا اور خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگیا۔
آیت نمبر : 30۔ اس آیت میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فطوعت لہ نفسہ “۔ یعنی اس کے نفس نے اس پر قتل کا معنی آسان کردیا نفس نے اسے تشجیع کی اور اپنے بھائی کو قتل کرنے کی صورت آسان بنادی، کہا جاتا ہے طاع الشی یطوع یعنی آسان کردیا، اطاعت کی، طوعہ فلان لہ یعنی اس نے اسکے لیے معاملہ آسان کردیا، ہر وی نے کہا : طوعت و اطاعت کا ایک معنی ہے، کہا جاتا ہے طاع لہ کذا جب کوئی کسی کے پاس خوشی سے آئے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے طاوعتہ نفسہ فی قتل اخیہ، حرف جر کو ہٹا دیا اور قتل اخیہ منصوب ہوگیا، روایت ہے کہ وہ ناواقف تھا کہ وہ اپنے بھائی کو کیسے قتل کرے، ابلیس ایک پرندہ یا کوئی حیوان لے کر آیا اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تاکہ قابیل اس کی اقتداء کرے تو قابیل نے بھی ایسا کیا، یہ ابن جریج اور مجاہد وغیرہما نے کہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : قابیل نے ہابیل کو سویا ہوا پایا تو اس نے پتھر کے ساتھ اس کا سر کچل دیا (2) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 200) اور یہ مکہ کے پہاڑ ثور میں ہوا تھا یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ حرا کے عقب میں ہوا، محمد بن جریر طبری نے یہ حکایت کیا ہے امام جعفر صادق نے کہا : بڑی مسجد کی جگہ بصرہ میں ہوا تھا، ہابیل کی عمر میں اس وقت بیس سال تھی جب قابیل نے اسے قتل کیا تھا، کہا جاتا ہے : قابیل اپنی طبع کی وجہ سے قتل کو جانتا تھا، کیونکہ انسان اگرچہ قتل کو نہ بھی دیکھے پھر بھی وہ طبعی طور پر اس کو جانتا ہے کہ نفس فانی ہے اور اس کا تلف کرنا ممکن ہے پس اس نے ایک پتھر اٹھایا اور ہند کی زمین میں اسے قتل کردیا۔ واللہ اعلم۔ جب اپنے بھائی کو قابیل نے قتل کردیا تو شرمندہ ہوا اور اس کے سر کے پاس روتے ہوئے بیٹھ گیا، پھر دو کوئے آئے وہ آپس میں لڑنے لگے ایک دوسرے کو قتل کردیا پھر اس قاتل کوے نے مقتول کوے کے لیے گڑھا کھودا اور اسے دفن کردیا، تو قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے لیے بھی ایسا ہی کیا، السؤۃ سے مراد شرمگاہ ہے، بعض نے فرمایا : اس سے مراد مقتول جسم ہے پھر وہ عدن کی زمین کی طرف بھاگ گیا، پھر ابلیس اس کے پاس آیا اور کہا : آگ نے تیرے بھائی کی قربانی کو کھالیا ہے، کیونکہ وہ آگ کی عبادت کرتا تھا تو بھی آگ کی عبادت کر یہ تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہوجائے گی، پس اس نے آگ کے لیے ایک مکان بنایا، یہ پہلا شخص تھا جس نے آگ کی عبادت کی۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جب اس نے قتل کیا تھا تو حضرت آدم (علیہ السلام) مکہ میں تھے درخت خشک ہوئے کھانوں کا ذائقہ بدل گیا، پھل کھٹے ہوئے اور پانی نمکین ہوگیا اور زمین کا رنگ تبدیل ہوگیا، حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا : زمین پر کوئی حادثہ ہوگیا ہے وہ ہند میں آئے تو ہابیل کو قابیل قتل کرچکا تھا۔ (1) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 243) بعض نے فرمایا : قابیل وہ ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف لوٹا، جب وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا : ہابیل کہاں ؟ اس نے کہا : میں نہیں جانتا، گویا تو نے مجھے اس کی حفاظت پر مقرر کیا تھا، حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے کہا : کیا تو نے ایسا کیا ہے ؟ اللہ کی قسم ! اس کا خون ندا دے رہا ہے اے اللہ ! اس زمین پر لعنت کر جس نے ہابیل کے خون کو پیا، روایت ہے کہ اس وقت سے زمین خون کو نہیں پیتی، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) سو سال زندہ رہے اور مسکرائے نہیں حتی کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا : حضرت آدم اللہ نے تجھے سلام کیا اور تجھے ہنسایا، یہ مجاہد (رح) اور سالم بن ابی الجعدرحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے، حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر سے ایک سو تیس سال گزر گئے یہ ہابیل کے قتل کے پانچ سال بعد ہوا تو ان کے لیے ایک چیز پیدا ہوئی اس کی تفسیر ہبۃ اللہ ہے یعنی ہابیل کا بدل (2) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 243) مقاتل نے کہا : قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے سے پہلے درندے اور پرندے حضرت آدم (علیہ السلام) سے انس رکھتے تھے، جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو وہ بھاگ گئے روایت ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا : جب حالت تبدیل ہوگئی، تغیرت البلاد ومن علیھا فوجہ الارض مغیر قبیح : تغیر کل ذی طعم ولون وقل بشاشۃ الوجہ الملیح : بہت سے اشعار ہیں جن کو ثعلبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے، ابن عطیہ نے کہا : ہر شعر بشاثۃ کی نصب کے ساتھ ہے اور بغیر تنوین کے ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 180 دارالکتب العلمیہ) قشیری وغیرہ نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) : نے شعر نہیں کہا۔ حضرت محمد ﷺ اور تمام انبیاء شعر سے نہی میں برابر ہیں لیکن جب ہابیل کو قتل کیا گیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس کا مرثیہ کہا، وہ سریانی تھے وہ مرثیہ بھی سریانی زبان میں ہے، حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے حضرت شیث (علیہ السلام) کو اس کی وصیت کی تھی فرمایا : تو میرا وصی ہے، مجھ سے یہ کلام محفوظ کرلے تاکہ وراثت چلتی رہے، پس یہ یعرب بن قحطان کے زمانہ تک محفوظ رہی پھر یعرب نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا اور اسے شعر بنا دیا (2) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 243) مسئلہ نمبر : (2) حضرت انس سے مروی ہے فرمایا : نبی مکرم ﷺ سے منگل کے دن کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ خون کا دن ہے اس میں حضرت حوا کو حیض آیا اور اس میں ابن آدم نے اپنے بھائی کو قتل کیا “ (٭) (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3364، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) صحیح مسلم وغیرہ سے حضرت عبداللہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” کوئی نفس ظلما قتل نہیں کیا جاتا مگر اس کے خون کا بوجھ حضرت آدم کے پہلے بیٹے پر ہوتا ہے، کیونکہ اس نے قتل کا آغاز کیا تھا “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب القسامہ، جلد 2، صفحہ 60) یہ تعلیل پر نص ہے، اس اعتبار سے ابلیس پر ہر اس شخص کی معصیت کا بوجھ ہوگا جس نے سجدہ کی نافرمانی کی، اسی طرح جس نے اللہ کے دین میں ایسی بدعت کا آغاز کیا جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام شروع کیا اس کے لیے اس کا اجر ہوگا اور ان لوگوں کا اجر بھی ہوگا، جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے اور جس نے اسلام میں کوئی براکام شروع کیا اس کے لیے اس کا گناہ ہوگا جو قیامت تک اس کے مطابق عمل کریں گے “ (ا) (ریاض الصالحین باب فیمن سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ صفحہ 126، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ خیر وشر میں نص ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ ائمہ کا ہے “ ‘۔ (4) (مسند احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ 276) یہ تمام صریح ہے اور آیت کے معنی میں صحیح نص ہے، یہ اس وقت تک ہے جب تک اس معصیت سے وہ توبہ نہ کرے، کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) وہ پہلے تھے جنہوں نے اس چیز کے کھانے میں مخالفت کی جس سے منع کیا گیا تھا، اور ان پر ان لوگوں کا بوجھ نہ ہوگا جو اس چیز کے کھانے پینے میں نافرمانی کریں گے جس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس سے توبہ کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی تھی پس وہ ایسے ہوگئے جیسے نے گنا کیا ہی نہیں، دوسری وجہ یہ کہ اس نے بھول کر کھایا تھا جیسا کہ صحیح قول ہے، ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا ہے اور بھولنے والا گنہگار نہیں ہوتا اور نہ اس مواخذہ کیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) یہ آیت حاسد کی حالت کے بیان کو متضمن ہے حتی کہ حسد نے اسے قریبی رشتہ دار کو اور مہربان شخص کو، اذیت دور کرنے والے کو ہلاک کرنے پر ابھارا۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاصبح من الخسرین “۔ یعنی ان سے ہوگیا جس نے نیکیاں کم کردیں، مجاہد نے کہا : قاتل کا ایک پاؤں اس کی پنڈلی سے ران تک باندھا دیا جاتا ہے اور یہ قیامت تک ایسا ہی رہے گا اور اس کا چہرہ سورج کی طرح ہوتا ہے سورج جدھر بھی گھومتا ہے گرمیوں میں اس پر آگ کا گھراؤ ہوتا ہے اور سردیوں میں اس پر برف کا گھراؤ ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 180 دارالکتب العلمیہ) ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا : اگر یہ صحیح ہے تو وہ اس گھاٹے سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد (آیت) ” فاصبح من الخسرین “۔ اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے ورنہ خسران (گھاٹا) تو دنیا وآخرت کے خسران کو عام ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 180 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : شاید یہ عقوبت اسے اس قول پر ہو کہ وہ گنہگار تھا، کافر نہ تھا، تو معنی ہوگا وہ دنیا میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے تھا۔
Top