Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
غرض اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا، تو اس نے اسے مار (ہی) ڈالا،114 ۔ جس سے وہ بڑا نقصان اٹھانے والوں میں ہوگیا،115 ۔
114 ۔ ہابیل کی اس مؤثر تقریر سے قابیل ذرا بھی متاثر نہ ہوا، بلکہ مقابلہ ومزاحمت کی طرف سے بےفکر ہو کر عجب نہیں جو قتل پر اور زیادہ آمادہ ہوگیا ہو (آیت) ’ فقتلہ “۔ توریت میں ہے۔” اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قائن اپنے بھائی ہابل پر اٹھا اور اسے مار ڈالا “۔ (پیدائش 4:8) (آیت) ” فطوعت لہ نفسہ “۔ یعنی اسے نفس نے اس کام پر رفتہ رفتہ دلیر ومستعد بنا دیا اور اسے اس کی نظر میں خوشگوار کردکھایا۔ ای فحسنت وسولت نفسہ وشجعتہ علی قتل اخیہ (ابن کثیر) یہ حال ہر بدی ومعصیت کا ہے، ابتداء ہر فطرت سلیم اس سے رکتی ہے، ہچکچاتی ہے، لیکن نفس رفتہ رفتہ اس کی جانب مائل اور اس پر گرویدہ ہوتا جاتا ہے، اور اس کی طرف سے جھجک مٹتی جاتی ہے، یہاں تک کہ انسان اسے بےدھڑک کر گزرتا ہے۔ ؛ 115 ۔ خسران اور نقصان اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ دنیا میں سب سے پہلا قتل کیا، قتل انسانی اور برادر کشی کا مرتکب ہوا۔ اور آخرت میں عذاب شدید کا مستحق ہوا۔ (آیت) ” فاصبح “۔ سے یہ مراد نہیں کہ قتل رات ہی کے وقت ہوا تھا۔ (آیت) ” اصبح “۔ کا اطلاق وقت مبہم کے لیے عام ہے۔ وقوع قتل و حصول خسران دن رات کے جس حصہ میں بھی ہوا ہو، اس لفظ کے اعتبار سے بےتکلف جائز ہے، اصبح ہوگیا کے معنی میں اور صار کے مرادف عرب کا عام محاورہ ہے۔ بعضوں کو اس محاورہ کے سمجھنے میں عجب غلطی ہوئی ہے۔ ولا دلالۃ فی قولہ فاصبح علی ان القتل کان لیلا وانما المراد بہ وقت مبھم جائز ان یکون لیلا و جائز ان یکون نھارا وھذا عادۃ العرب فی اطلاق مثلہ والمراد بہ الوقت المبھم (جصاص) اصبح بمعنی صار (بحر) الاتری انہم جعلوا اضحی وضل وامسی وبات بمعنی صار (بحر)
Top