Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 155
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ
وَھٰذَا : اور یہ كِتٰب : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس کی پیروی کرو وَاتَّقُوْا : اور پرہیزگاری اختیار کرو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے تم پر
اور (اے کفر کرنے والو) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی۔ تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے
اتباعِ قرآن حکیم قول باری ہے ( وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتبعوہ واتقوا، اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے۔ ایک برتک والی کتاب ، پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو) یہ کتاب یعنی قرآن مجید کی اس کے مقتضیات یعنی فرض یا نفل یا اباحت کے بموجب اتباع کا حکم ہے، نیز اس میں مندرج ہر چیز کا اس کے مقتضیٰ کے مطابق اعتقاد کا امر ہے۔ برکت خیر یعنی بھلائی کے ثبوت اور اس کے نمو کا نام ہے،۔ فقرہ ” تبارک اللہ “ ثبات کی صفت ہے جس کا نہ کوئی اول ہے نہ آخر۔ اس تعظیم کا استحقاق صرف اللہ وحدہ، لا شریک کو حاصل ہے۔ قول باری ہے ( ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی) حضرت ابن عباس ؓ ، حنس، مجاہد، قتادہ ، سدی اور ابن جریج کا قول ہے کہ ان گروہوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اہل کتاب صرف یہود و نصاریٰ ہیں۔ مجوس اہل کتاب نہیں ہیں۔ اس لیے کہ مجوس اگر اہل کتاب ہوتے تو پھر اہل کتاب دو گروہ نہ ہوتے تین گروہ ہوتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اہل کتاب دو گروہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دوگروہوں کی بات مشرکین کا قول نقل کرتے ہوئے فرمائی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ان کے قول کی نقل نہیں ہے بلکہ یہ ان پر بایں معنی حجت تام کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر بھی کتاب نازل کردی ہے تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی۔ اس طرح اللہ تعلایٰ نے کتاب نازل کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور ان کا یہ استدلال باطل کردیا کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل کی گئی تھی۔ ہم پر نازل نہیں کی گئی تھی۔ قول باری ہے ( ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملائکۃ او یاتی ربک کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آکھڑے ہوں یا تمہارا رب خود آ جائے) ایک قول کے مطابق ” یا تمہارا رب خود آ جائے “ کے معنی ” یا تمہارے رب کا حکم عذاب کے ساتھ آ جائے “ کے ہیں۔ حسن سے یہ قول مروی ہے۔ فقرے میں یہ الفاظ اسی طرح مخدوف ہیں جس طرح قلو باری ( ان الذین یوزون اللہ) میں مخدوف ہیں۔ اس کے معنی ہیں جو لوگ اللہ کے دوستوں کو ایذا پہنچاتے ہیں “ ایک قول کے مطابق آیت زیر بحث کے معنی ہیں ” یا تمہارا رب اپنی زبردست نشانیاں لے آئے “ ایک قول ہے ” فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آ جائیں “ یا ” تمہارے رب کا حکم قیامت کے دن آ جائے “ یا ” تمہارے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں یعنی سورج مغرب سے طلوع ہوجائے “۔ یہ اقوال مجاہد، قتادہ اور سدی سے منقول ہیں۔
Top