Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
(9:1) براء ۃ۔ بیزاری۔ بیزار ہونا۔ خلاصہ۔ چھٹکارا پانا۔ بری ہونا۔ قطع تعلقی۔ مصدر ہے۔ البرئ۔ البرائ۔ التبری کے اصل معنی کسی مکروہ امر سے نجات حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے برات من المرض۔ میں نے مرض سے نجات پائی اور برات من فلان میں فلاں سے بیزار ہوں۔ اور قرآن میں ہے : ان اللہ بریٔ من المشرکین ورسولہ (9:3) اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی۔ اور انتم بریئون من اعمل وانا بریٔ مما تعملون (10:41) تم میرے عملوں سے بری الزمہ ہو اور میں تمہارے عملوں سے بری الذمہ ہوں۔ براء ۃ خبر ہے جس کا مبتدا ھذہ محذوف ہے۔ یعنی ھذہ براء ۃ۔ یہ (اعلان) برات (قطع تعلقی) ہے۔ من اللہ ورسولہ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے الی الذین عاھدتم من المشرکین۔ مشرکوں میں سے ان لوگوں کی طرف جن سے تم نے (مسلمانوں نے) معاہدہ کر رکھا ہے (جیسا کہ کہتے ہیں ھذا کتب من فلان الی فلان یہ تحریر فلاں کی جانب سے فلاں کی طرف) ۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ سنہ 9 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر الحج مقرر فرما کر مکہ روانہ کیا۔ ان کے جانے کے بعد آیات سورة برأۃ 1 تا 37 نازل ہوئیں۔ جن میں ساف صاف حکم دیا گیا تھا کہ اب کفر کے ساتھ سابقہ معاہدے منسوخ ہیں۔ رسالت مآب علیہ التحیۃ والسلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے بھیجا کہ حج کے دن ان احکام خداوندی کا اعلان عام کردیں۔ چناچہ دسویں ذوالحجہ کو جمرۃ العقبہ کے پاس کھڑے ہوکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔ اس سورة کے ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ علماء نے اس کی متعدد وجوہات لکھی ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو حضرت امام رازی (رح) نے فرمائی ہے :۔ کہ رسول مقبول ﷺ نے خود اس سورة کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ کرام ؓ نے بھی نہیں لکھی۔ اور بعد کے لوگ بھی اس کی پیروی کرتے چلے آئے۔
Top