Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اعلان براءت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
تعارف سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یہ سورة قرآن کریم کی نوویں سورة ہے۔ اس میں سولہ 16 رکوع اور 129 آیات ہیں۔ اس کے متعدد نام ہیں جن میں سے دو نام زیادہ معروف ہیں۔ 1: البراء ۃ 2: التوبۃ قرآن کریم کی بیشتر سورتوں کی طرح اس سورة کے نام اس کے عنوان نہیں بلکہ شناخت کے لیے صرف نام ہیں۔ جن سے مقصودیہ ہے کہ جب یہ نام لیے جائیں تو ان سے یہ سورة ذہن میں آجائے۔ البراء ۃ کا معنی ہوتا ہے ” بیزاری، بری ہونا، ذمہ داریوں اور معاہدات سے دستبردار ہوجانا، تعلق توڑلینا “ چونکہ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے اظہارِ بیزاری فرمایا ہے، تمام معاہدات کے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، ان کے جان ومال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے، اس لیے اسے ” سورة البراء ۃ “ کہا گیا ہے۔ التوبۃ کا نام شاید اس لیے دیا گیا ہے کہ ان میں چند مخلص مسلمانوں کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے جنھوں نے محض تساہل کی وجہ سے جنگ تبوک میں شرکت نہیں کی تھی اور پھر اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردیا تھا۔ پچاس دن کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت قرآن کریم کی آیات کی شکل میں اتری اور تاقیامت ان کے لیے اعزاز بن گئی چونکہ ان باتوں کا تذکرہ اس سورة میں ہوا ہے، اس لیے اسے ” سورة التوبۃ “ کہا گیا۔ بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ اس سورة میں عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے عام معمول سے ہٹ کر اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی حالانکہ قرآن کریم کی اس سورة کے علاوہ ہر سورة سے پہلے بسم اللہ درج ہے اور بسم اللہ کا لکھا جانا علامت ہے۔ اس بات کی کہ یہاں سے نئی سورة شروع ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی ؟ اس کے جواب میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن سب سے بہتر بات وہی ہے جوامامِ رازی اور بعض دوسرے مفسرین نے لکھی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب کسی رکوع یا آیت کا نزول ہوتاتو آپ کاتب وحی کو بلا کر حکم دیتے کہ اسے فلاں سورة اور فلاں جگہ لکھا جائے اور جہاں نئی سورة نازل ہوتی اس سے پہلے اللہ کی جانب سے بسم اللہ بھی نازل ہوتی تو آنحضرت ﷺ نئی سورة سے پہلے بسم اللہ بھی لکھواتے۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا کہ پہلی سورة ختم ہوگئی، اب یہ نئی سورة شروع ہورہی ہے۔ لیکن سورة توبہ کے نزول کے وقت آنحضرت ﷺ نے بسم اللہ نہیں لکھوائی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بسم اللہ نازل ہی نہیں ہوئی۔ آپ نے کاتب وحی کو بلا کر بغیر بسم اللہ کے سورة توبہ کا آغاز فرمایا۔ قرآن کریم چونکہ نہایت احتیاط سے منضبط ہوا ہے۔ اس لیے یہ اسی طرح پڑھا گیا جس طرح آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت جبرئیل نے پڑھا اور پھر یہ اسی طرح لکھا گیا جس طرح آنحضرت ﷺ نے اللہ کی ہدایت کے مطابق اسے لکھنے کا حکم دیا۔ اگر اس میں ذرا سی بھی اپنی مرضی کرنے کی گنجائش ہوتی تو کاتبانِ وحی اس میں بسم اللہ کا اضافہ کردیتے یا بعد میں مسلمانوں نے جب دور صدیق ( رض) اور دور عثمان ( رض) میں قرآن کریم مرتب کیا اس وقت بسم اللہ لکھوادی جاتی۔ لیکن وہ لوگ چونکہ ہر بات میں اللہ کے رسول کی ہدایت کے پابند تھے اور ان کا ہر کام اللہ کے رسول کے اتباع میں ہوتا تھا اس لیے انھوں نے بھی سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ کا اضافہ مناسب نہیں سمجھا اور قرآن کریم چونکہ آج تک اسی احتیاط کے ساتھ لکھا جارہا ہے اس لیے آج بھی آپ کسی مصحف میں سورة توبہ سے پہلے بسم اللہ لکھی ہوئی نہیں پائیں گے حالانکہ لکھنے کے لیے یہ دلیل کافی تھی کہ اگر یہ سورة الگ سورة ہے تو قرآن کریم کے اسلوب کے مطابق اس سے پہلے بسم اللہ ہونی چاہیے۔ لیکن انھوں نے اس معاملے میں بھی مکمل اتباعِ رسول کا ثبوت دیا۔ مصاحفِ عثمان جنھیں حضرت عثمان ( رض) کے زمانے میں سرکاری طور پر مرتب کیا گیا اور پھر ایک ایک نسخہ مملکتِ اسلامیہ کے ہر اقلیم میں بھیج دیا گیا۔ ان میں سے غالباً تین نسخے آج بھی مختلف جگہ موجود ہیں اور وہ نسخہ بھی ترکی میں محفوظ ہے جس پر تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان ( رض) کو شہید کیا گیا۔ ان نسخوں میں بھی سورة توبہ سے پہلے بسم اللہ مکتوب نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو کس احتیاط سے جمع کیا گیا اور اگلی نسلوں تک منتقل کیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے ذہن میں بھی اسی طرح کا لیکن ایک دوسری نوعیت کا سوال پیدا ہوا۔ انھوں نے براہ راست حضرت عثمانِ غنی ( رض) سے کیونکہ وہ جامع القرآن تھے اس بارے میں استفسار کیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ایک ترتیب قائم کی گئی ہے کہ سب سے پہلے وہ بڑی بڑی سورتیں رکھی گئی ہیں جن میں آیات کی تعداد سو (100) یا اس سے زیادہ ہے۔ انھیں اصطلاح میں ” مئین “ کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بڑی سورتیں رکھی گئی ہیں جن میں آیات کی تعداد سو سے کم ہے۔ انھیں ” مثانی “ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹی سورتیں رکھی گئی ہیں جن کو ” مفصلات “ کہا جاتا ہے۔ اس ترتیب کا تقاضا یہ ہے کہ سورة توبہ کو سورة انفال سے پہلے رکھا جائے کیونکہ سورة توبہ کی آیتیں سو (100) سے زائد اور انفال کی سو (100) سے کم ہیں۔ تو سورة انفال کو سورة توبہ سے پہلے لاکر آخر اس اصول کی مخالفت کیوں کی گئی ہے ؟ حضرت عثمانِ غنی ( رض) نے اس کا جو جواب دیا اس کا حاصل بھی یہی تھا کہ آنحضرت ﷺ نے سورة انفال کو پہلے رکھا اور سورة توبہ کو بعد میں اور درمیان میں بسم اللہ بھی نہیں لکھوائی اور ہم اسی کے پابند ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی جمع و ترتیب کی ایک ایک بات اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق وجود میں آئی ہے اور اسی طرح بعد کی نسلوں کو قرآن کریم محفوظ صورت میں ملا ہے۔ البتہ ! جب ہم ان دونوں سورتوں کے مضامین پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں سورتوں میں عمود و مضمون کے لحاظ سے نہایت گہرا اتصال بھی ہے اور مقصد وغایت کے اعتبار سے فی الجملہ انفصال بھی۔ ایک کا رخ بالکلیہ مسلمانوں کی طرف ہے اور دوسری کا رخ اصلاً مشرکین، اہل کتاب اور منافقین کی طرف ہے۔ ایک کی نوعیت تیاری کی ہے اور دوسری کی اعلانِ جنگ کی۔ اشتراک و انفصال کے ان دونوں پہلوئوں کو ممیز کرنے کے لیے حکمت الہٰی مقتضی ہوئی کہ یہ سورة سابق سورة سے بالکل الگ بھی نہ ہو لیکن فی الجملہ نمایاں اور ممتاز بھی رہے۔ بسم اللہ نہ لکھے جانے سے یہ دونوں پہلو بیک وقت نمایاں ہوگئے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس صنے حضرت علی ( رض) سے نقل کیا ہے کہ سورة براءۃ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ { بسم اللہ الرحمن الرحیم }” امان “ ہے اور سورة براءۃ میں کفار کی امان اور عہدوپیمان کو ختم کیا گیا ہے۔ علمی نکتہ کے لحاظ سے اس بات کی ایک اہمیت ہے۔ لیکن حقیقی سبب بسم اللہ نہ لکھنے کا وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ سورة توبہ کے بنیادی مباحث سورة توبہ بھی قرآن کریم کی دوسری سورتوں کی طرح متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ لیکن اس کے عام مباحث تین باتوں سے متعلق ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قریش مکہ نے حدیبیہ کا معاہدہ توڑدیا تو آنحضرت ﷺ نے محسوس فرمایا کہ قریش مکہ اور عرب کے دوسرے قبائل کا نوجوان طبقہ کسی طرح بھی اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ہضم نہیں کرپارہا وہ دیکھ رہا تھا کہ معاہدہ حدیبیہ سے پہلے مسلمان ایک محدود علاقے میں گھرے ہوئے تھے۔ مدینہ میں منافقین ان کے لیے مسائل پیدا کرتے رہتے تھے اور اطرافِ مدینہ میں اگرچہ آنحضرت ﷺ نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے بعض قبائل سے بقائے باہمی اور دوستی کے معاہدات کرلیے تھے لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ جب بھی انھیں موقعہ ملتا تھا وہ درپردہ قریش مکہ کی حمائیت کرتے تھے اور ان کی بھی دلی آرزو تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے مسلمانوں کا استیصال کردیاجائے۔ خیبر میں پڑے ہوئے یہودی مختلف طریقوں سے ان کی ہمنوائی کرتے رہتے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر نبی کریم ﷺ نے قریش مکہ کو سنبھلنے کا موقعہ نہ دیا۔ ابوسفیان نے خود مدینہ پہنچ کر تجدیدِ معاہدہ کی کوشش کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور جنگ کی تیاریاں تیز کردیں۔ چناچہ رمضان آٹھ ہجری کو آپ نے مکہ معظمہ فتح کرلیا۔ مکہ معظمہ اللہ کے گھر کی وجہ سے عربوں کا نہ صرف مرکز عبادت اور مرکز عقیدت تھا بلکہ ان کی قبائلی عزت ووجاہت کا مظہر بھی تھا۔ مکہ کے سرنگوں ہونے سے اگرچہ ان کی اصل طاقت ٹوٹ گئی۔ بیشتر لوگ مسلمان ہوگئے اور باقی لوگوں نے ادھر ادھر پناہ لینے میں عافیت سمجھی۔ آنحضرت ﷺ نے بھی عفو ودگزر سے کام لیا اور کسی سے گزشتہ اعمال کا حساب نہ پوچھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے سرنگوں ہونے سے عرب طاقت بالکل مٹ گئی تھی۔ طائف میں ہوازن، ثقیف، نضر اور جشم ابھی تک بہت بڑی طاقت رکھتے تھے۔ انھوں نے جب دیکھا کہ مسلمان صبح نوبہار کی طرح آگے بڑھتے چلے آرہے ہیں تو انھوں نے جاہلی نظام سے محبت کرنے والوں اور بت پرستی پر جان دینے والوں کو جمع کیا اور اسلام کے اصلاحی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے اپنی ساری طاقت میدان میں جھونک دی۔ ان کے پاس افرادی قوت کی بھی کمی نہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ پہاڑوں کی قدرتی پناہ گاہیں اور پرانے قلعے ان کے لیے چھائونیوں کا کام دے رہے تھے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے جلد ہی بعد طائف کی طرف کوچ فرمایا اور وہ عظیم جنگ برپاہوئی جسے ” جنگ حنین “ کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور کافر قوت کی کمر ٹوٹ گئی۔ آنحضرت ﷺ واپس مدینہ تشریف لے آئے لیکن آپ مسلسل دیکھ رہے تھے کہ اگرچہ عرب میں کفروشرک کے مراکز توڑ دیئے گئے ہیں لیکن پھر بھی عرب کی کافر اور مشرک قوتیں بالکل تباہ نہیں ہوئیں اور مدینہ کے منافقین خاص طور پر قیصر سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی مسلمانوں میں کوئی نازک موقعہ پیداہو تو اندر سے کافر اور مشرک قوتیں اور مدینہ کے منافقین شورش برپا کریں اور باہر سے قیصر حملہ کرکے اس نوزائیدہ قوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ آنحضرت ﷺ نے اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے اندورنِ عرب عربوں سے عفورودرگزر کا معاملہ کیا اور تبلیغ و دعوت کے ذریعے انھیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی اور جن لوگوں کو تالیفِ قلب کے ذریعے مائل کیا جاسکتا تھا انھیں اس طرح بھی مائل کیا گیا اور شمال کی قوتوں کو خطرہ بننے سے پہلے آپ نے وہاں تبلیغی وفود بھیجے جو کہ عرب سے شمال کی طرف سرحد شام سے متصل جو قبائل آباد تھے اگرچہ یہ عیسائی تھے لیکن ان میں سے بعض قبائل کا نسبی تعلق عربوں سے تھا۔ لیکن رومی سلطنت کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے یہ عربوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ چناچہ آپ نے ان کی طرف پندرہ آدمیوں کا وفد بھیجا۔ لیکن ان لوگوں نے ” ذات الطلح “ کے مقام پر اس وفد کے تمام ارکان کو قتل کردیا اور صرف رئیسِ وفد کعب بن عمیر غفاری ( رض) بچ کر آنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی زمانہ میں آنحضرت ﷺ نے بصریٰ کے رئیس شُرَحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجا تھا۔ اس نے بھی آپ کے ایلچی حارث بن عمیر ( رض) کو قتل کردیا۔ آپ نے جب اس علاقے کے لوگوں کی شوریدہ سری اور حد سے بڑھی ہوئی رعونت دیکھی تو آپ نے جمادی الاولیٰ آٹھ (8) ہجری میں تین ہزار (3000) مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تاکہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پرامن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بےزور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب ” معان “ کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے اور خود قیصر روم ” خمص “ کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی فیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوفناک اطلاعات کے باوجود تین ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر سا دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور مؤتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایا۔ اس جسارت کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلمان بالکل پس جاتے، لیکن سارا عرب اور تمام شرقِ اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور تینتیس (33) کے اس مقابلہ میں کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ اس صورتحال سے دو نتیجے سامنے آئے ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی اس غیر معمولی شجاعت وبہادری اور اللہ پر بےپناہ توکل نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو قیصر کے زیر اثر تھے اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ بنی سُلَیم، اشجع، غطفان، زبیان اور فزارہ کے لوگ اسی زمانہ میں داخل اسلام ہوئے اور اسی زمانہ میں سلطنتِ روم کی عربی فوجوں کا ایک کمانڈر فروہ بن عمرو الجذامی مسلمان ہوا اور اس نے ایمان کا ایسا زبردست ثبوت دیا کہ گردو پیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے انھیں گرفتار کرکے اپنے دربار میں بلایا اور ان سے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کرلو یا ترک اسلام، جس کے نتیجے میں تم کو نہ صرف رہا کیا جائے گا بلکہ تمہیں اپنے عہدے پر بھی بحال کردیا جائے گا اور یا اسلام، جس کے نتیجہ میں تمہیں سزائے موت دی جائے گی۔ انھوں نے ٹھنڈے دل سے اسلام کو چن لیا اور راہ حق میں جان دے دی۔ اندازہ کیجیے کہ جنگ مؤتہ کے شہدا کا خون اور راہ خدا میں ان کی شہادت کے اثرات کس قدر سریع الاثر ثابت ہوئے کہ وہ قبائل جن کی فطرت آزاد تھی ان میں تیزی سے اسلام پھیلنا شروع ہوا اور دوسری طرف اس کے برعکس ایک دوسرا نتیجہ بھی ظاہر ہوا وہ یہ کہ قیصر نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا تین ہزار کا لشکر ہماری ایک لاکھ فوج سے نہ صرف کہ خوف زدہ نہیں ہوا بلکہ فوج کی انتہائی کوشش کے باوجود اسے شکست نہ دی جاسکی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جنوب کی طرف سے اٹھنے والی بادبہاری اپنے اندر آندھی اور طوفان سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ چناچہ اس نے اس نوزائیدہ طاقت کو کچلنے کے لیے سرحدوں پر فوجوں کا اجتماع شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ چونکہ ایسی ہر طرح کی صورتحال سے باخبر رہتے تھے۔ آپ نے اس صورتحال کو دیکھا، اس کی سنگینی کو سمجھا اور اسکے دوررس نتائج کے پیش نظر محسوس کیا کہ ایسے فیصلہ کن وقت میں خاموشی اسلام کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ملک میں قحط سالی ہے اور گرمی کا موسم پورے شباب پر ہے۔ فصلیں پکنے کے قریب ہیں۔ وسائلِ جنگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مقابلہ ایک ایسی طاقت سے ہے جس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی آپ کے پیش نظر یہ منظر بھی تھا کہ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے مسلسل بائیس (22) سال تک جو جان توڑ کوششیں ہوئی ہیں اور جس کے لیے مسلسل قربانیاں دی گئی ہیں آج اس کی قسمت ترازو میں ہے آج معمولی سی کمزوری بھی ہولناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ چناچہ تمام مشکلات کے باوجود آپ نے قیصر کی قوت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا اور قرآن کریم نے مسلسل مسلمانوں کو اس جہاد کے لیے ہر ممکن ترغیب دی۔ چناچہ مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں۔ مالداروں نے اپنی دولت پیش کردی۔ مزدور صحابہ نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر جو کچھ ہوسکا حضور کی خدمت میں پیش کردیا۔ عورتوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے۔ سرفروشوں کے لشکر ملک کے ایک ایک کونے سے جان وتن کا نذرانہ لے کر حاضر ہوگئے۔ اس طرح نبی کریم ﷺ تیس ہزار (30000) کا لشکرجرار لے کر رجب 9 ہجری کو شام کی طرف روانہ ہوئے۔ جن میں دس ہزار (10000) سوار تھے، اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے۔ مسلمانوں کی سرفروشی اور انتہا درجہ کے ایثار نے اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرلیا چناچہ تبوک پہنچ کر اندازہ ہوا کہ قیصر اور اس کے امراء نے سرحد پر فوجیں اکٹھا کرنا شروع کی تھیں لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ وہ سرفروشوں کا لشکرجو تین ہزار (3000) کی تعداد میں ہوتے ہوئے ہمارے لاکھوں سے ٹکرا گیا تھا۔ اب اسی قبیلہ فکر کے لوگ ایک بڑی تعداد میں اپنے پیغمبر کی قیادت میں آرہے ہیں۔ ہم تین ہزار کو قابو نہ کرسکے تو ان تیس ہزار کا پیغمبر کی موجودگی میں کون سامنا کرسکتا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ فوجیں سرحدوں سے ہٹالی جائیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اسی اخلاقی فتح کو کافی سمجھا، بجائے شام کی حدود میں داخل ہونے کے بعد آپ تبوک ہی میں رک گئے۔ وہاں بیس دن قیام رہا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنتِ روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر رہی تھیں انھیں فوجی دبائو سے سلطنتِ اسلامی کا باج گزار بنالیا گیا۔ بعض نصرانی رئوسا نے جزیہ دینا قبول کرلیا اس طرح سے سرحد کے حالات کو بہتر بناکر اور وہاں ممکن خطرات کا ازالہ فرماکر آپ نے واپسی کا قصد فرمایا۔ غلبہ دین کے اعلان کا وقت آپ کی واپسی کی اطلاع پورے عرب میں پھیل گئی اور جو لوگ اس امید میں تھے کہ مسلمان قیصر کی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ یہ نئی ریاست استحکام سے پہلے ہی تباہی کا شکار ہوجائے گی۔ انھوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت اور مسلمان کامیاب اور کامران واپس تشریف لے آئے ہیں تو ان کے برے ارادے آپ اپنی موت مرگئے۔ چناچہ اب وہ وقت آگیا جس کا اعلان قرآن کریم میں کیا گیا تھا کہ اللہ وہ ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے۔ چناچہ آپ نے اب جزیرہ عرب کی حد تک تمام ادیان کو مغلوب کرنے یا نکال باہر کرنے کا عزم کرلیا۔ حکم دے دیا کہ جزیرہ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں۔ یہاں صرف ایک اسلام باقی رہے گا۔ اسلام دوسرے مذاہب کا احترام کرتا ہے لیکن اللہ کی زمین پر اس کے دین کو غالب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک مضبوط مرکز، ایک مضبوط جماعت اور ایک مضبوط بیس (Base) وجود میں آتا۔ جس سے کلمۃ اللہ کی سربلندی کا کام لیا جاتا۔ چناچہ اس لیے اس سورة کے آغاز ہی میں تمام مشرک اور کافر قوتوں کو آگاہ کردیا گیا کہ وہ اسلام قبول کرلیں تو مسلمانوں کے بھائی ہوں گے اور اگر وہ اسلام قبول کرنا نہیں چاہتے اور ان کا تعلق اہل کتاب سے ہے تو وہ جزیہ دے کر مسلمان ملک میں عزت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں جزیرہ عرب سے نکلنا ہوگا کیونکہ جزیرہ عرب اسلامی قوتوں کا بیس (Base) ہے جس میں دوسرے کسی دین کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں مسلمان یکسوئی سے فیصلے کرسکیں اور جہاں فتنہ انگیزی اور فتنہ پروری کا کوئی امکان نہ ہو۔ عرب مشرکین کی طرف چونکہ نبی کریم ﷺ کی براہ راست بعثت ہوئی، ان کی اکثریت نے آپ کی دلآویز شخصیت کو دیکھا، آپ کے معجزانہ اخلاق دیکھے، آپ کے بےعیب سیرت و کردار کو ملاحظہ کیا، آپ پر اترتی ہوئی وہ کتاب دیکھی جس کے سامنے دنیا کا علم ماند پڑگیا۔ اس لیے عربوں کے لیے جزیہ کی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی انھیں صرف یہ حکم دیا گیا کہ دیکھو تمہارا دین، تمہاری زبان میں آیا رسول تمہاری زبان بولتا ہے، تم جس ملت ابراہیمی کے ماننے والے ہو اسی کی تمہیں دعوت دی گئی۔ اس کے باجود اگر تم نے اسلام قبول نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قبولیت کے مادے اور انسانیت کو گم کرچکے ہو۔ تم دھرتی کا بوجھ ہو اس لیے تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں چناچہ ان کے لیے اس سورة کے پہلے پانچ رکوعوں میں مختلف اعلانات فرمائے گئے۔ جنگ تبوک کے لیے نکلنے میں جن مخلص مسلمانوں نے کوتاہی کی انھیں ترغیب بھی دی اور ترہیب سے بھی کام لیا۔ منافقین کو بھی باربار سرزنش کی۔ جنگ تبوک سے واپسی پر پیچھے رہ جانے والوں کے بائیکاٹ کا حکم دیا منافقین پر سختی کی گئی۔ ان کی مسجد ضرار جو مسجد کے روپ میں سازشوں کا اڈہ تھا۔ ابوعامر راہب راتوں کو چھپ کر وہاں آتا، اسے جلانے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح سے اسلامی انقلاب کے تمام گوشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جن ہدایات کی ضرورت تھی وہ اس سورة میں عطا کی گئیں۔ بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِِیْنَ ط فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ لا وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیڈ الْکٰفِرِیْنَ وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ 5 لا وَرَسُوْلُہٗ ط فَاِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ ج وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِط وَبَشِّرِالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ لا (التوبۃ : 1 تا 3 ) (اعلانِ برأت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔ سو اب ملک میں چار ماہ چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور بیشک اللہ کافروں کو رسوا کرکے رہے گا۔ اور اطلاعِ عام ہے اللہ اور رسول کی طرف سے بڑے حج کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہے پس اگر تم توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری پہنچادو) مشرکین سے براءت کا اعلان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذیقعدہ 9 ہجری میں رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکرِ صدیق ( رض) کو امیر حج بنا کر مکہ معظمہ روانہ کرچکے تھے کہ ان آیات کا نزول ہوا۔ فتحِ مکہ کے بعد یہ دوسرا حج تھا 8 ہجری کا حج قدیم طریقے سے ہواکیون کہ فتح مکہ کے بعدعفوِ عام کا اعلان کردیا گیا تھا تاکہ مشرکینِ عرب اچھی طرح اپنے معاملے پر غور کرلیں اور مسلمانوں کو آہستہ آہستہ پورے جزیرہ عرب پر کنڑول کرنے کا موقعہ میسر آجائے۔ اس کے بعد جنگ حنین میں جاہلیتِ قدیمہ نے آخری کوشش کی کہ اسلام کا راستہ روکیں لیکن انھیں اپنے ارادوں میں بری طرح ناکامی ہوئی لیکن اس سے یہ بات ضرور واضح ہوگئی کہ اگرچہ جزیرہ عرب میں اسلام کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں لیکن ابھی تک بعض جگہ ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی کوئی بڑا حادثہ پیش آئے وہ باہر کی قوتوں کی مدد سے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ وحیِ الہٰی کی روشنی میں حالات کے مدوجزر سے پوری طرح واقف تھے۔ آپ کوئی عاجلانہ اقدام کرنے کی بجائے اس انتظار میں تھے کہ اسلام کے اثرات منطقی انداز میں اپنے انجام کو پہنچیں اور پھر پورے جزیرہ عرب کو شرک سے پاک کرنے کا اقدام کیا جائے۔ اسی دوران شمالی سرحدوں پر اسلامی قوتوں کی سرکوبی کے لیے اندورنی منافقین کی دعوت پر قیصر نے کچھ کارروائی کرنے کا ارادہ کیا لیکن آنحضرت ﷺ اس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے سر پر جاپہنچے اور اسے اپنی فوجیں پیچھے ہٹانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ اس طرح سے آنحضرت ﷺ کو سرحدی حالات درست کرنے اور سرحدوں کو محفوظ کرنے کا موقع مل گیا اور جزیرہ عرب کے اندر اس کے اثرات یہ ہوئے کہ جن خفیہ قوتوں کو ابھی تک باہر سے کچھ مدد ملنے کی امید تھی ان کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور انھوں نے یہ بات سمجھ لی کہ اب جزیرہ عرب کی قسمت اسلام سے وابستہ ہے چناچہ یہی وہ وقت تھا جب آنحضرت ﷺ کو جزیرہ عرب کی یکسوئی، دین کی وحدت، کامل غلبہ دین اور جزیرہ عرب کی حد تک اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ چناچہ اسی غلبہ دین اور حاکمیتِ الہٰی کے نفاذ کے اعلان کے لیے سورة توبہ کے ابتدائی رکوع نازل ہوئے اور چونکہ اسلامی نظام زندگئی میں عدل اور ایفائے عہد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس لیے جزیرہ عرب کے لیے آخری علان کرنے سے پہلے ان تمام معاہدات سے دستبرداری کا اعلان فرمایا تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ اسلام نے نقض عہد کا ارتکاب کیا ہے۔ چناچہ کافر قوتوں کو جن سے کسی طرح کے بھی معاہدے تھے وہ چونکہ باربار ان معاہدوں کو عملی طور پر توڑ چکے تھے۔ ظاہری اعلان کی ایک رسم باقی تھی جس سے ایک بھرم بنا ہوا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ درپردہ قریش مکہ کی حمائیت کرتے تھے، انھیں صاف صاف بتادیا گیا کہ آج کے بعد ہر طرح کے معاہدات سے اللہ اور اس کا رسول دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں۔ مشرکین کو چار مہینوں کی مہلت جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ نو (9) ہجری کے حج کے لیے حضرت صدیق اکبر ( رض) کو امیر حج بناکر آنحضرت ﷺ روانہ فرماچکے تھے کہ سورة توبہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اگرچہ اس کے بعض حصے اس سے پہلے نازل ہوچکے تھے۔ اس میں چونکہ معاہدات سے دستبرداری کا اعلان اور جزیرہ عرب کے لیے یک مستقل پالیسی کا اعلان تھا۔ اس لیے ان آیات کی حیثیت عام آیات قرآنی سے ذرا مختلف تھی اور پھر اس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج کے دنوں میں اس کی عام منادی کی جائے تو صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ ان آیات کریمہ کو حضرت ابوبکر ( رض) کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ وہ حج میں اس کا اعلان کردیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عرب کی روایت کے مطابق اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے ہونا چاہیے یا میرے ہی گھر کے کسی آدمی کی طرف سے ہونا چاہیے۔ چناچہ آپ نے حضرت علی ( رض) کو اس خدمت پر مامور فرمایا۔ آپ ( رض) ان آیات کو لے کر مکہ معظمہ پہنچے، انھیں دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کو گمان ہوا کہ شاید آنحضرت ﷺ نے انھیں امیر حج بنا کر بھیجا ہے۔ استفسار پر حضرت علی ( رض) نے فرمایا کہ میں تو ایک کار خاص کے لیے بھیجا گیا ہوں، امیرِ حج تو آپ ہی ہیں۔ چناچہ انھوں نے عرفات اور منیٰ میں بطور خاص اور حاجیوں کے ہر اجتماع میں عمومی طور پر ان آیات کا اعلان فرمایا۔ جن میں پہلی بات تو ان لوگوں کے معاہدات سے دستبرداری تھی جو ہمیشہ درپردہ دشمنانِ دین کی حمائیت کرتے رہے تھے۔ لیکن اسلام نے اپنے عادلانہ اور کریمانہ طریقے کے خلاف یہ نہیں کیا کہ اسی وقت مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکل جانے یا ان کے قتل عام کا حکم دے دیا جاتا بلکہ نہائیت مہربانی کا سلوک کرتے ہوئے انھیں چار مہینے کی مہلت دی گئی اور ساتھ ہی یہ بات واضح کردی گئی کہ چار مہینے کی مہلت تمہیں اس لیے دی جارہی ہے کہ تمہیں فیصلہ کرنے میں آسانی رہے اور اگر تمہیں ملک چھوڑنا ہو تو اس کے انتظامات کرنے کی دشواری نہ ہو۔ لیکن اگر تم یہ سمجھو کہ تم ان چار مہینوں میں اسلامی انقلاب کے خلاف کوئی ایسی طاقت فراہم کرلو گے یا باہر سے تمہیں کوئی کمک پہنچ جائے گی جس سے تم اسلامی انقلاب کا راستہ روک لوگے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ انقلاب اللہ کا دین ہے، اس کی بالادستی ہے، زمین کے مالک کا زمین پر حاکمانہ اقتدار ہے، جس کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے۔ تم نے آج تک ہر مرحلے پر دیکھا ہے کہ مسلمان محدود قوت رکھتے ہوئے ہمیشہ غالب آتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے ساتھ اللہ کی قوت ہے۔ اسلام کی بالادستی مسلمانوں کی نہیں اللہ کی بالادستی ہے۔ اس لیے اگر تم اس کو روکو گے تو تمہارا براہ راست تصادم اللہ سے ہوگا، تو اللہ کو تو دنیا میں کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ ان ابتدائی ارشادات کے بعد عام اعلان فرمایا گیا۔ قرآن کریم کے اعلان کے ساتھ ساتھ مزید چار باتوں کی بھی تشہیر کی گئی جن کا ذکر احادیث مبارکہ میں ہے۔ 1 جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کرے۔ 2 اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ 3 بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ 4 جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ باقی ہے یعنی جو نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔ اس اعلان کے لیے حجِ اکبر کا دن چنا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب اپنی ساری قباحتوں اور گمراہیوں کے باوجود اللہ کے گھر سے عقیدت رکھتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر سال ایام حج میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں وہاں حاضری دیں۔ اس لیے ان تک کسی بات کے پہنچانے کا سب سے موثر ذریعہ یہ تھا کہ حج کے دنوں میں اس کا اعلان کیا جائے کیونکہ جب یہ لوگ واپس جائیں گے تو وہ اعلان ملک کے کونے کونے میں پہنچ جائے گا۔ پھر اس کے بعد ملک کے کسی گوشے میں کسی شخص کے پاس یہ عذر باقی نہیں رہے گا کہ مجھے اللہ کے اس اعلان کی اطلاع نہیں تھی۔ حاجی اگرچہ یمن سے بھی آتے تھے لیکن مزید احتیاط کے لیے آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ( رض) کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا اور وہاں بھی ان کے ذریعے اس کا اعلان کیا گیا۔ ضمنی طور پر دو باتیں ذہن میں رہنی چاہییں۔ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ سے مراد ؟ 1 یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ سے کیا مراد ہے ؟ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد ” یوم العرفہ “ ہے۔ بعض دوسرے اہل علم اس سے ” یوم النحر “ مراد لیتے ہیں۔ حضرت سفیانِ ثوری t ” حج کے پانچوں دن “ مراد لیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بات بھی غلط نہیں۔ لیکن حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یوم النحر کے بارے میں فرمایا : ( ھذا یوم الحج الاکبر) ” یہ حجِ اکبر کا دن ہے۔ “ حجِ اکبر سے مرا د ؟ 2 حجِ اکبر سے کیا مرا د ہے ؟ حجِ اکبر سے مراد وہ حج ہے جو ہم آٹھ ذی الحج سے بارہ یا تیرہ ذی الحج تک مناسکِ حج کی ادائیگی کی صورت میں کرتے ہیں۔ اسے اکبر اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ حجِ اصغر، عمرہ کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہر حج، حجِ اکبر ہے۔ عوام میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ جو حج جمعہ کے دن ہو یعنی نو تاریخ یوم عرفہ اگر جمعہ کے دن میں واقع ہو تو اسے حجِ اکبر کہتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں اس میں یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا۔ حجِ اکبر میں یہ اعلان کیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری ہیں۔ اس کی وضاحت آئندہ آیات میں آرہی ہے۔ لیکن بات جو سامنے کی بالکل ہے وہ یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مشرکین کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس حج کے بعد وہ جزیرہ عرب میں نہیں رہ سکیں گے اور وہ اللہ کے گھر اور حرم کے قریب کوئی مشرکانہ حرکت نہیں کرسکیں گے۔ جزیرہ عرب کی غالب قوت چونکہ اب مسلمان ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ پورے جزیرہ عرب میں اسلامی ریاست قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے یہاں کا ہر باشندہ ریاست پر اپنے حقوق رکھتا ہے۔ اس حوالے سے اعلان کیا جارہا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین کے کسی حق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی جان، ان کا مال اور ان کی آبرو، ان مہینوں کے گزرنے کے بعد جن کی مہلت دی گئی ہے، مباح ہوجائے گی۔ اب ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جاہلیتِ قدیمہ سے اسلام کی طرف پلٹ آئیں۔ مشرکانہ طور اطوار چھوڑیں اور توحید کے پرستار بن جائیں۔ ان سے براہ راست خطاب کرکے فرمایا کہ یہی تمہارے لیے بہتر ہے، اسی میں تمہارے لیے عافیت ہے کیونکہ اللہ کے آخری نبی کے ہجرت کرجانے کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آجانا چاہیے تھا۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ عرب کے بعض علاقوں بالخصوص مکہ معظمہ میں قبولیتِ اسلام کا سلسلہ کسی نہ کسی حدتک جاری رہا، تمہیں اللہ کی طرف سے مہلت ملتی رہی۔ اب وہ مہلت ختم ہوگئی ہے اب جزیرہ عرب کے بارے میں یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ اسے مرکز اسلام، اسلامی ریاست اور اسلام کا بیس (Base) بن کر رہنا ہے۔ یہاں کسی دوسرے دین کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اہل کتاب کو بھی یہاں سے نکلنا ہوگا اور مشرکین کو نکلنا ہوگا یا قتل ہونا ہوگا۔ اس لیے عافیت میں اسی میں ہے کہ تم اسلام کے سایہ عافیت میں آجاؤ۔ لیکن اگر تم روگردانی کروتو باردگر اس کا اعلان فرمایا کہ تمہارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی اگر یہ خیال موجود ہے کہ تم اللہ کو عاجز کرسکتے ہو توا سے نکال دو اور اللہ کا فیصلہ سن لو کہ وہ کافروں کو دردناک عذاب دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔
Top