Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 109
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب هٰذَا : یہ الْوَعْدُ : وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
آپ ان بیویوں میں سے جس کو چاہیں الگ رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جس کو آپ نے الگ کردیا تھا، اپنے پاس بلاؤ تو بس اس پر کچھ بھی گناہ نہیں یہ اس لیے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ رنج نہ کریں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کو دیں اس پر سب خوش رہیں اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ جاننے والا تحمل والا ہے،
ترکیب : من ابتغیت من موضع نصب بابتغیت وھی شرطیۃ والجواب فلا جناح علیک ویمکن ان یکون مبتداء والعائد محذوف ای والتی ابتغی تھا والخبر فلا جناح کلہن منصوب علی توکید الضمیر فی اٰتیتھن والرفع علی توکید الضمیر فی یرضین من ازواج من مزیدۃ لتاکید الاستغراق و لو اعجبک حال من فاعل تبدل والتقدیر مفروضاً اعجابک بھن الا ما ملکت استثناء من النساء و ھو فی موضع رفع بدلا من النساء او فی موضع نصب علی اصلہ۔ تفسیر : ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو ان بیویوں کی بابت معاشرت کے متعلق احکام سناتا ہے اور ہم بارہا ثابت کرچکے ہیں کہ یہ بیویاں دراصل مدرسہ دینیہ کی طالب علم تھیں جو بوجہ مذکورہ ان کو ازواج میں داخل کیا گیا تھا، احکام آیندہ کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ فقال ترجی من تشاء فیہن وتؤوی الیک من تشاء ترجی مہموز اور غیر مہموز دونوں طرح سے آیا ہے۔ ارجاء تاخیر ارجئہ اخرۃ اس آیت کے معنی میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر کا یہ قول ہے کہ یہ آیت شب ہاشی کے بارے میں ہے کہ آپ کو اختیار ہے جس کو چاہے مؤخر کیجئے ساتھ نہ نہ سولایے اور جس کو چاہے اپنے پاس بلایے۔ ایک حکم : یہ ایک حکم خاص آنحضرت ﷺ کے لیے تھا، آپ پر شب ہاشی میں برابری رکھنا واجب نہ تھا، بلکہ آپ کو اختیار دیا گیا تھا جس کے پاس چاہیں رات کو رہیں، جس کے پاس چاہیں نہ ر ہیں۔ بخاری و مسلم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں ان عورتوں پر جو اپنے نفس کو ہبہ کردیتی تھیں، عیب رکھتی تھی، پھر جب یہ آیت ترجی الخ نازل ہوئی تو میں نے کہہ دیا کہ یا حضرت اللہ تعالیٰ تیری خاطر رکھنے میں بہت جلدی کرتا ہے۔ یسارع فی ھواک کے یہ معنی ہیں کہ جو بات تجھ پر شاق گزرتی ہے، اللہ اس کو تجھ سے دور کردیتا ہے، اس کو تیری خاطر بہت منظور ہے۔ ابن زرین کہتے ہیں کہ جب امہات المومنین نے حضرت ﷺ کو نان نفقہ کے بارے میں تنگ کرنا شروع کیا اور آپ خفاء ہو کر ایک مہینے تک سب سے الگ ہوئے، تب آیت تخییر نازل ہوئی اور آپ نے سب کو کہہ دیا، اگر دار آخرت منظور ہے (کہ جس کے لیے تم کو بیوی بنایا گیا) تو جس حال میں رکھا جاوے اس پر رہنا منظور کرو اور جو دنیا مقصود ہو تو آؤ تم کو طلاق دے دوں سب بیویوں نے دار آخرت کو منظور کیا، تب باری سے رہنا بھی واجب نہ رہا یہ آیت اس بارے میں ہے، کیونکہ جب ان کو سمجھا دیا گیا کہ تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو تم خاص ایک دینی کام کے لیے بیویوں میں شامل کی گئی ہو، بیویوں نے بھی سمجھ لیا کہ ہم اسی لیے ہیں، تب سب اس بات پر راضی ہوگئیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے، کیونکہ اگر یہ آزادی پیغمبر ﷺ کو حاصل نہ ہو تو اور سینکڑوں اہم مقاصد دینی میں فرق آجاوے، رات دن بیویوں ہی کے جھگڑے سے فرصت و مہلت نہ ملے، مگر اس کے بعد بھی حتی المقدور آنحضرت ﷺ ان کے حقوق میں اپنی طرف سے برابری رکھتے تھے، جیسا کہ ابن العربی وغیرہ علماء کہتے ہیں اور اسی پر سب کا اتفاق ہے اور اس حدیث سے کہ جس کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے، یہی سمجھا جاتا ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ ہماری باری کے دن جو آپ اور بیوی کے پاس رہنا چاہتے تھے تو ہم سے اجازت لیتے تھے۔ اس آیت نازل ہونے کے بعد۔ شعبی وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ آیت طلاق کے بارے میں ہے کہ جس کو آپ چاہیں طلاق دیں، جس کو چاہیں رکھیں، آپ کو اختیار ہے۔ ابن عباس ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ اور حسن کہتے ہیں کہ یہ آیت نکاح کے لیے ہے کہ جس سے چاہیں آپ نکاح کریں جس سے چاہیں نہ کریں، آپ کو نکاح کی عام اجازت دی گئی ہے، اس تقدیر پر علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت ناسخ ہے، اگلی آیت لایحل لک النساء من بعد کی ومن ابتغیت ممن عزلت اور تو جس کو چاہے پاس بلالیوے ان میں سے کہ جن کو الگ کرچکا ہے، ساتھ ہونے سے یعنی جن کے ساتھ سونا ترک کردیا ہے، ان میں سے اگر کسی کو بلاوے اور ساتھ سلاوے فلاح جناح علیک تو تجھ پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ تتمہ ہے، ترجی من تشاء کا۔ ذلک ادنٰی ان تقر اعینہن ولایحزن ویرضین بما اتیتہن کلہن یہ اختیار اور تفویض تجھ کو اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غمگین نہ ہوں اور جو کچھ آپ ان کو دیویں اس سے ہر ایک خوش رہے۔ کس لیے کہ جب ان کو یہ معلوم ہوجاوے کہ ہمارا شب باشی میں کوئی حق مقرر نہیں ہے، پھر جس قدر آپ جس سے التفات کریں گے وہ اس کو احسان سمجھے گی، مگر آپ نے اس پر بھی برابری رکھی، واللہ یعلم مافی قلوبکم اور تمہارے دلوں کے حالات کو اللہ خوب جانتا ہے کہ کس طرف زیادہ رغبت ہے، کس کی طرف کم وکان اللہ علیمًا حلیمًا اور اللہ خبردار ہے ہر چیز کا ظاہر و باطن اور ہر چیز کی حکمت و علت اس کو معلوم ہے، جو حکم دیتا ہے اس میں مصلحت دیکھ کردیتا ہے۔ علیم بھی ہے کہ جو بندوں سے احکام کی بجا آوری میں تقصیر ہوتی ہے تو وہ اس پر جلد عتاب نہیں کرتا۔
Top