Mutaliya-e-Quran - An-Naml : 71
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب هٰذَا : یہ الْوَعْدُ : وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
وہ کہتے ہیں کہ "یہ دھمکی کب پُوری ہو گی اگر تم سچے ہو؟"
وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ لوگ کہتے ہیں ] مَتٰى [ کب ] هٰذَا الْوَعْدُ [ یہ وعدہ (پورا) ہوگا ] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ہو ] نوٹ۔ 1: رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے ۔ ایک عذاب دنیا سے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازما ظاہر ہوتا ہے ۔ دوسرے عذاب آخرت سے ۔ اس کا جواب ان کی قوموں نے ہمیشہ یہی دیا کہ یہ عذاب کب آئے گا ۔ اگر سچے ہو تو یا تو قیامت لائو، اگر قیامت نہیں تو وہ عذاب ہی لا کر دکھائو جو تمہاری تکذیب کی صورت میں ہم پر آنے والا ہے ۔ فرمایا ان سے کہہ دو کہ عجب نہیں کہ جس چیز کے لئے تم جلدی مچاتے ہو اس کا کوئی حصہ تمہارے پیچھے ہی لگا ہوا ہو ۔ تستعجلون سے قیامت مراد ہے جس کے لئے وہ جلدی مچاتے تھے ۔ بعض سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کا لازمی نتیجہ ہے ۔ یہاں اس بات کو عسیٰ کے لفظ سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال عذاب کے ظہور کا انحصار قوم کے رویے پر تھا کہ وہ ایمان لا کر اس سے محفوظ بھی رہ سکتی تھی ۔ چناچہ ہوا بھی یہی کہ آنحضرت ﷺ عذاب کی قوم کی اکثریت ایمان لائی اس وجہ سے اس پر ایسا عذاب نہیں آیا جیسا پچھلی قوموں پر آیا تھا ۔ (تدبر قرآن )
Top