Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 71
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب هٰذَا : یہ الْوَعْدُ : وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور یہ پوچھتے ہیں کہ یہ دھمکی کب ظہور میں آئے گی اگر تم سچے ہو !
آیات 73-71 ردف بغیر صلہ کے بھی آتا ہے اور ل کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے۔ کلام عرب میں دونوں کی نظیریں حتمی ہیں اس کے معنی ہیں ایک شے کے دوسری شے کے پچیھے لگ ہوئے ہونے کے۔ مکذبین کا مطالعہ عذاب اور اس کا علم … اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک عذاب دنیا سے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً ظاہر ہوتا ہے دور سے عذاب آخرت سے اس انداز کا جواب ان کی قوموں نے ہمیشہ یہی دیا کہ ممی ھذا نوعد یہ عذاب کب آئے گاڈ یعنی اگر تم سچے ہو تو یا تو قیامت لائو جس کی روز دھمکی سنا رہے ہو، اگر قیامت نہیں تو وہ عذاب ہی لا کر دکھائو جو تمہاری تکذیب کی صورت میں تمہارے گمان کے مطابق لازماً ہم پر آنے والا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ضرور دکھائو۔ اس کے بغیر ہم یہ ماننے والے نہیں ہیں کہ تم اپنے دعوے اور وعدے میں سچے ہو۔ قل عسی ان … الایۃ فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ عجب نہیں کہ جس چیز کے لئے تم جلدی مچائے ہونے ہو اس کا کوئی حصہ تمہارے پیچھے ہی لگا ہوا ہے۔ الذی تستعجدن سے قیامت مراد ہے جس کے لئے جلدی مچانے کا ذکر اوپر آیت 68 میں بھی گزر چکا ہے اور آیت 71 میں بھی بعض سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کا لازمی نتیجہ ہے۔ فرمایا کہ عذاب کے لئے جلدی نہ مچائو، اب تو اس کا ظہور تمہارے رویے پر منحصر ہے۔ اگر تم ایمان نہ لانے تو قیامت کے عدالت کبریٰ کا ایک نمونہ تمہارے لئے ظاہر ہو کے رہے گا۔ یہ چیز رسول کی بعثت ہی کے اندر مضمر ہے۔ یہاں اس بات کو عمی کے لفظ سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال عذاب کے ظہورہ انحصار قوم کے رویئے پر تھا۔ وہ ایمان لا کر اس سے محفوظ بھی رہ سکتی تھی۔ چناچہ ہوا بھی یہی کہ آنحضرت ﷺ کی قوم کی اکثریت ایمان لائی اس وجہ سے اس پر اس قسم کا کوئی عذاب نہیں آیا جس قسم کا عذاب پچھلی قوموں پر آیا۔ وان ربک لذو فضل علی الناس ولکن اکثر ھملا یشکرون یہ عذاب اور قیامت کے لئے جلدی مچانے والوں کے مال پر اظہار افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو مہلت دیتا ہے وہ اپنے فضل و کرم سے محض اس لئے دیتا ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے رویے کی اصلاح کرلیں اور اس کی رحمت کے مستحق نہیں، لیکن لوگوں کی ناشکری کا حال یہ ہے کہ وہ اس مہلت اور اس فضل کو اللہ کے رسول کے جھوٹے ہونے کی دلیل بنا لیتے ہیں اور جہاں سے ان کو رحمت لے کر اٹھنا چاہئے وہاں سے وہ اس کا غضب لے کر لوٹتے ہیں۔
Top