Madarik-ut-Tanzil - Ibrahim : 49
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
کہہ دو کہ تم (مال) خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ تم نافرمان لوگ ہو۔
آیت 53: قُلْ اَنْفِقُوْا (آپ فرما دیں تم خرچ کرو) نیکی کے راستہ میں طَوْعًا اَوْکَرْھًا (خوشی و ناخوشی) پسند و ناپسند۔ نحو : یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ قراءت : حمزہ، علی نے کُرْھًا۔ کاف کی پیش سے پڑھا ہے۔ یہ امر ہے جو خبر کے معنی میں ہے۔ تمہاری کوئی بات قابل قبول نہیں : مطلب یہ ہے۔ لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ (تم سے کسی طرح قبول نہ ہوگا) ای انفقتم طوعًا اوکرھا تم پسند و ناپسند جس صورت میں بھی خرچ کرو ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔ اور دوسری آیت میں اسی طرح فرمایا۔ استغفرلھم اولاتستغفر لھم ( التوبہ : 80) ان کے حق میں استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے۔ اور ایک شاعر کا یہ قول ؎ اَبینی بنا اواحسنی لا ملومۃً ٭ لدینا ولا مقلیّۃ ان تقلّت ہم تمہیں ملامت نہ کریں گے تو ہمارے ساتھ بد سلوکی کرے یا احسان سے پیش آئے اور اس کا عکس بھی جائز ہے جیسا اس قول میں۔ رحم اللہ زیدًا اور اس کا معنی ان کی بات قبول نہ کرنا ہے۔ کہ آپ ﷺ ان کی بات قبول نہ کریں۔ بلکہ رد کردیں۔ یا اللہ اس کو ثواب و بہتری نہ دے (گویا بددعا ہے) طوعًا کا مطلب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لازم کرنے کے بغیر۔ کرھًا کا مطلب لازم کرنے والے ہیں۔ الزام کو اکراہ اسلئے کہا کیونکہ وہ منافق تھے۔ انکا الزام انفاق تھا جو اکراہ کی طرح ان پر بھاری تھا۔ اِنَّکُمْ (بلاشبہ تم) انفاق کو رد کرنے کی علت ذکر کی۔ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (بلاشبہ تم عدولی حکم کرنے والے لوگ ہو) سرکشی کرنے والے اور حدود کو توڑ نے والے۔
Top