Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 54
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ
اِنْ : نہیں نَّقُوْلُ : ہم کہتے اِلَّا : مگر اعْتَرٰىكَ : تجھے آسیب پہنچایا ہے بَعْضُ : کسی اٰلِهَتِنَا : ہمارا معبود بِسُوْٓءٍ : بری طرح قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْٓ : بیشک میں اُشْهِدُ : گواہ کرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاشْهَدُوْٓا : اور تم گواہ رہو اَنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار ہوں مِّمَّا : ان سے تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا (کر دیوانہ کر) دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔
54۔ 60۔ حضرت ہود کی بددعا سے قوم عاد میں تیس برس متواتر قحط رہا جب قحط سے قوم عاد کے لوگ بہت بری حالت میں ہوگئے تو حضرت ہود کو ان پر ترس آیا اس لئے حضرت ہود نے ان کو وہ نصیحت کی جس کا اس رکوع کے شروع میں ذکر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اے قوم عاد اللہ سے اپنے شرک اور بت پرستی کی توبہ استغفار کرو تاکہ اللہ تم پر رحم کرے اور مینہ برسادے اور تمہاری یہ قحط کی حالت رفع ہو مگر شیطان کسی کے دل پر قابو پالیتا ہے تو وہ حق بات کے ماننے کی جگہ حق بات کا الٹا جواب دیتا ہے اس لئے انہوں نے یہ الٹا جواب دیا کہ اے ہود تمہارے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور تم جو ایسی باتیں کرتے ہو اس کا سبب یہ ہے کہ تم اکثر ہمارے معبودوں کو برا کہتے رہتے ہو اس کے برے اثر سے تم مجنون اور دیوانے ہوگئے ہو آخر لاچار ہو کر حضرت ہود نے یہ جواب دیا کہ میں تو تم کو جو نصیحت کرتا تھا وہ کرچکا تم نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ تم کو ہلا کر کے تمہاری جگہ دوسری قوم زمین پر آباد کرے گا آخر وہی ہوا کہ سخت آندھی سے یہ لوگ غارت ہوئے اور قوم ثمود ان کی جگہ آباد ہوئی دوسرا جواب ہود (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یہ دیا کہ اے قوم میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم لوگ بھی اس کے گواہ رہو کہ میں تمہاری ان شرک کی باتوں سے بیزار ہوں کہ تمہارے بتوں کو یہ قدرت ہے جو انہوں نے مجھ کو دیوانہ بنادیا۔ تمہارے بتوں کو کچھ اختیار ہوتا تو وہ تمہارا قحط دفع کردیتے یا تمہاری عورتوں کو اچھا کرتے۔ اگر تمہارا یہی غلط خیال ہے کہ ان بتوں کو کچھ اختیار ہے تو تم اور تمہارے بت مل کر جھٹ پٹ مجھ کو کچھ صدمہ پہنچا دو میرا بھروسہ تو اس ذات پاک پر ہے جس کا اختیار ہر ایک پر چلتا ہے اور میں یہ خوب جانتا ہوں کہ میں سیدھے راستہ پر ہوں اور اللہ تعالیٰ کا انتظام بھی سیدھا ہے وہ کسی بےگناہ کو کسی آفت میں نہیں پھنسنے دیتا اور مجھے جو نصیحت کرنی تھی وہ میں تمہیں کرچکا تم نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں غارت کر کے تمہاری جگہ دوسری قوم زمین پر آباد کرے گا اور جب اللہ تم کو ہلاک کرنا چاہے گا تو تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے اور اللہ ایسا صاحب قدرت ہے کہ سب چیزیں اس کی نگہبانی میں ہیں تم مجھ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہو گے تو مجھ کو اللہ کی نگہبانی کافی ہے نبی کی بددعا سے قوم عاد پر جو دنیا میں سخت آندھی کا عذاب آیا اور عقبی میں وہ لوگ سخت عذاب میں گرفتار ہوئے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا کہ اس عذاب سے ہود اور ان کے ساتھ کے ایماندار لوگ تو بچ گئے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی عاد کی ہلاکت کے قصہ کا حاصل یہی ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن سخت آندھی ان لوگوں پر مسلط رہی پہلے پہل آندھی کو دیکھ کر یہ لوگ اپنے گھروں میں گھس گئے اور گھروں کے دروازے بند کر لئے آندھی نے ان کے گھروں کے دروازے توڑ ڈالے اور ان لوگوں کو پٹخ پٹخ کر ہلا کردیا یہ تو دینا کے عذاب کا حال ہوا۔ عقبیٰ کا ان لوگوں کا یہ حال فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ عذاب میں گرفتار رہیں گے۔ اب آگے مشرکین مکہ کو تنبیہ فرمائی کہ ملک شام کے سفر میں قوم ہود کی اجڑی ہوئی بستی دیکھ کر عبرت پکڑ و اور سمجھو کہ قوم کے سرکش سرداروں کا کہنا مان کر اللہ کے احکام اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ میں ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور جا پڑتے ہیں۔ { اخذ بنا صیتھا } عرب کا ایک محاورہ ہے جو فرمانبرداری کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزرچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم ہود جیسے ظالم بےانصاف لوگوں کو جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے اور پھر پکڑتا ہے تو بالکل ہلاک کردیتا ہے۔ 1 ؎ یہ حدیث قوم ہود کی مہلت اور ہلاکت کی گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 678 ج 2 باب قولہ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری الخ۔
Top