Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 3
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا١ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہی وہ۔ جس مَدَّ الْاَرْضَ : پھیلایا زمین کو وَجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں رَوَاسِيَ : پہاڑ (جمع) وَاَنْهٰرًا : اور نہریں وَمِنْ كُلِّ : اور ہر ایک سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) جَعَلَ : بنایا فِيْهَا : اس میں زَوْجَيْنِ : جوڑے اثْنَيْنِ : دو دوقسم يُغْشِي : وہ ڈھانپتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لئے جو يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرتے ہیں
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے۔ اور ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی رات کو دن لباس پہناتا ہے غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
3۔ 4۔ اس سے اوپر کی آیت میں اللہ جل شانہ نے آسمان کا حال بیان فرمایا تھا اس آیت میں زمین میں اپنی قدرت کا حال بیان فرمایا کہ اللہ نے زمین کو پھیلا دیا۔ لمبائی اور چوڑائی میں پہاڑوں کے بوجھ رکھ دئیے اور اس میں جا بجا نہریں اور ندیاں دریا سمندر جاری کئے تاکہ زمین کی پیداوار کو مناسب موقع پر پانی پہنچتا رہے۔ اور ہر طرح کے پھل میوے الگ الگ رنگ کے علیحدہ ذائقہ کے پیدا ہوں جس میں کوئی سرخ ہے تو کوئی زرد کوئی سیاہ کسی کا مزہ پھیکا ہے کسی کا میٹھا کسی کا کڑوا کسی کا کسیلا پھر رات تمام ہوئی اور دن آن موجود ہوا یہ سب خدا کی ایسی قدرت ہے کہ جو اس میں غور اور فکر کرتا ہے اسے خدا کی ہستی کا یقین ہوجاتا ہے پھر فرمایا کہ زمین کو دیکھو ایک ٹکڑا ایک سے ملا ہوا ہے اس پر بھی کوئی ٹکڑا زمین کا شور ہوتا ہے اور کوئی پاکیزہ ہوتا ہے کہیں طرح طرح کے باغ ہوتے ہیں جس میں انگور کھجوروں کے مختلف قسم کے درخت ہوتے ہیں بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جس کی جڑ آپس میں ملی ہوتی ہے۔ اور بعض درخت علیحدہ علیحدہ ہیں کسی زمین میں کھیتی کی جاتی ہے جہاں طرح طرح کے اناج پیدا ہوتے ہیں۔ جس پر انسان کی زندگی کا دارو مدار ہے ان درختوں اور کھیتوں کو ایک پانی سے سر سبز و شاداب کیا جاتا ہے اور یہ ایک ہی زمین میں ہوتے ہیں پھر بھی قسم قسم کے طرح طرح کے پھل پھول میوے ترکاریاں اور اناج ہی کھانے میں ایک کا مزہ ایک سے بڑھ کر ہوتا ہے سب کا ذائقہ جدا جدا ہے کوئی کسی کے مزہ کو نہیں پہنچتا یہ سب اس کی ادنیٰ قدرت ہے اس لئے فرمایا کہ عقل مند آدمی کے واسطے خدا کے پہچاننے کے لئے یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس طرح اب مینہ برسنے سے ہر طرح کی پیداوار تیار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس سے سب مرے ہوئے آدمیوں کے جسم تیار ہوجاویں گے پھر ان جسموں میں روحیں پھونک دی جا ویں گی۔ 1 ؎ قرآن شریف میں جگہ جگہ کھیتی کے ذکر کے بعد حشر کا تذکرہ جو آیا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکرین حشر کے نزدیک حشر ایک دشوار چیز ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو حشر اور ہر سال کی کھیتی کی پیداوار دونوں یکساں ہیں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 481 باب النفخ فی الصور۔
Top