Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 3
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا١ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہی وہ۔ جس مَدَّ الْاَرْضَ : پھیلایا زمین کو وَجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں رَوَاسِيَ : پہاڑ (جمع) وَاَنْهٰرًا : اور نہریں وَمِنْ كُلِّ : اور ہر ایک سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) جَعَلَ : بنایا فِيْهَا : اس میں زَوْجَيْنِ : جوڑے اثْنَيْنِ : دو دوقسم يُغْشِي : وہ ڈھانپتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لئے جو يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے پھیلایا ہے زمین کو اور رکھے ہیں اس میں بوجھل پہاڑ اور پانی کی نہریں اور ہر قسم کے پھلوں سے بنایا ہے اس (زمین) میں جوڑا جوڑا وہ اوڑھاتا ہے رات کو دن پر ، بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں ۔
(ربط آیات) سورة رعد میں اللہ تعالیٰ نے بنیادی عقائد توحید رسالت ، اور قیامت کا ذکر فرمایا ہے ، البتہ اس سورة کا ایک خصوصی موضوع حق و باطل کی کشمکش ہے ، پہلی آیت میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو بیان کیا گیا ، اس کے بعد دلائل قدرت میں سے علویات کا ذکر ہوا اور اللہ نے آسمانوں کی تخلیق اور عرش کو بغیر ستونوں کے قائم کرنے کا ذکر کیا ، سورج اور چاند کی تسخیر کا ذکر کرکے اللہ نے پوری کائنات پر اپنے کنڑول اور تسلط کا اظہار فرمایا ، ان بڑی بڑی چیزوں کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت پر دلیل قائم کی اور سمجھایا کہ ہر شخص کو اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی ۔ اب آج کے درس میں آیات سفلیہ کو توحید کی دلیل بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے زمین اور اس پر پیدا کی جانے والی بڑی بڑی چیزوں کا تذکرہ کرکے ان میں غوروفکر کی دعوت دی ہے تاکہ انسان دلائل قدرت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عقل استعمال کرنے کی بھی ترغیب دی ہے ، جو لوگ عقل کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے یا غور وفکر نہیں کرتے ان کے لیے دلائل قدرت کچھ مفید ثابت نہیں ہو سکتے ۔ (زمین کا پھیلاؤ ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وھو الذی مد الارض “ وہ وہی خدا تعالیٰ کی ذات ہے جس نے زمین کو پھیلایا ہے ، مد کا معنی پھیلانا یا ہموار کرنا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ھوالذی “ کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ زمین کو پچھانے والا وہی ہے ، دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو زمین کی طرف ہے کہ زمین کو بچھانے والا وہی ہے ، دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو زمین کو معبود مانتے ہیں حالانکہ معبود تو وہ ذات ہے جس نے زمین کو انسانوں کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ نے زمین کی وضع ایسی بنائی ہے کہ انسان اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے ، زمین انسانوں کے پاؤں تلے روندی جاتی ہے ، تو یہ عبادت کے لائق کیسے ہو سکتی ہے ؟ ایسا عقیدہ رکھنا تو نہایت ہی جہالت اور بےوقوفی کی بات ہے ۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین اسی طرح پھیلی ہوئی ہے جس طرح زمین پر کوئی کپڑا یا چمڑا پھیلا دیا جاتا ہے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ زمین کے پھیلاؤ کا یہ مطلب نہیں ہے ، چھٹی صدی کے عظیم مفسر قرآن امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ زمین گیند کی طرح گول ہے ، یہ ایک بہت بڑا کرہ ہے جس کا قطر چوبیس ہزار میل ہے ، اب ظاہر ہے کہ اتنی بڑی چیز کی گولائی تو نظر نہیں آسکتی بلکہ جہاں بھی دیکھیں گے یہ پھیلی ہوئی ہموار ہی نظر آئے گی ، امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ زمین سمیت تمام کرے گول ہیں ۔ البتہ ان کی جسامت میں بڑا فرق ہے زمین اور سورج میں ایک اور تیرہ لاکھ کی نسبت ہے یعنی سورج زمین کی نسبت تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے اور دونوں کا درمیانی فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے ، جہاں تک چاند کا تعلق ہے ، یہ زمین سے قدرے چھوٹا ہے زمین اور چاند کا درمیانی فاصلہ پونے تین لاکھ میل سے پانچ لاکھ میل تک ہے ، یہ تمام آسمانی کرے ہماری زمین سے دوری کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں ، زمین سمیت تمام کروں کو اللہ نے فضا میں معلق کر رکھا ہے جو کہ اس کی قدرت تامہ کا شاہکار ہے ۔ (سلسلہ ہائے کوہ) فرمایا اللہ کی ذات وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا (آیت) ” وجعل فیہا رواسی وانھرا “ اور اس زمین میں بوجھل پہاڑ اور پانی کی نہریں رکھی ہیں ، دنیا بھر میں اونچے اونچے پہاڑ پائے جاتے ہیں ، برصغیر پاک وہند کی شمالی سرحد پر سلسلہ کوہ ہمالیہ تین ہزار میل تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس میں مونٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے جو سطح سمندر سے انتیس ہزار فٹ بلند ہے ، پاکستانی سرحد کے ساتھ ملنے والا کوہ قراقرام اور بعض دوسرے پہاڑ پچیس ہزار (25000) فٹ بلند ہیں ، پہاڑوں کے چھوٹے بڑے سلسلے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ، پرانی ریاضی والے کہتے ہیں کہ سطح ارضی پر تیس ہزار فٹ بلند پہاڑ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک گز لمبی کسی چیز پر جو کے سترھویں حصے کی کیا حیثیت ہے ، اس طرح زمین کے پھیلاؤ اور وسعت کے مقابلہ میں بڑے سے بڑا پہاڑ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، لہذا پہاڑوں کی موجودگی زمین کے پھیلاؤ پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتی ، البتہ پہاڑی حصے کچھ ابھرے ہوئے نظر آئیں گے جب کہ باقی زمین ہموار ہی نظر آئے گی ، اسی لیے زمین کے لیے مد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں زمین گیند کی طرح گول شکل کی ہے ۔ (پہاڑوں کے فائدے) سورة انبیاء میں زمین پر پہاڑ پیدا کرنے کی حکمت یہ باین کی گئی ہے (آیت) ” ان تمیدبھم “ تاکہزمین حرکت نہ کرسکے یا زمین مضطرب نہ ہو مفسرین نے تمید کے دو معنی بیان کیے ہیں ، پہلا معنی تو عام فہم ہے کہ زمین پر بوجھل پہاڑ رکھ دیے ہیں تاکہ اس کا توازن قائم رہے اور یہ مضطرب نہ ہو یعنی ڈولنے نہ پائے مگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) ، 1 (تفھیمات الھیہ ص ۔۔۔۔۔ ج 2) مضطرب کو اس معنی میں لیتے ہیں کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو میدانی علاقوں کی انسانی زندگی مضطرب ہوتی کیونکہ وہ پہاڑوں سے پیدا ہونے والی ضروریات زندگی سے محروم رہ جاتے ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں انسانی زندگی کی بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ مثلا ندی ، نالوں ، اور دریاؤں کے منبع جات پہاڑ ہیں ۔ پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر سینکڑوں سالوں سے برف پڑی ہوئی ہے جو آہستہ آہستہ پگھل کر ندی نالوں کے لیے پانی مہیا کرتی ہے ، یہ پانی دریاؤں کے ذریعے میدانوں میں پہنچتا ہے اور پھر دریاؤں سے نہریں نکال کر میدانی زمین کو سیراب کیا جاتا ہے ۔ جس سے پھل سبزیاں اور اناج پیدا ہوتا ہے ، یہی پانی پہاڑوں کے اندر ہی اندر چلتا رہتا ہے اور کسی جگہ چشموں کی شکل میں ابل پڑتا ہے جس سے خود پہاڑی علاقوںٗ کے انسان ، جانور اور زمین سیراب ہوتی ہے پہاڑوں کی بعض جڑی بوٹیاں ہیں جو انسان صحت کے لیے بڑی مفید ثابت ہوتی ہیں ، تمام مع دنیات مثلا سونا ، چاندی ، لوہا سیسہ ، ابرق ، چونا ، اور پتھر پہاڑوں ہی کی پیداوار ہیں جو انسانی زندگی کے لیے نہایت مفید ہیں ، پہاڑوں میں پیدا ہونے والے بڑے بڑے درخت عمارتی اور دوسری کارآمد لکڑی مہیا کرتے ہیں ، جو انسانی معاشرے کے لیے نہایت ضروری ہے اسی لیے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ تمید کا معنی یہ ہے پہاڑوں کی عدم موجودگی کی صورت میں انسانی زندگی مضطرب رہتی ۔ (مختلف الانواع پھل) (آیت) ” ومن کل الثمرت “۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے پھل بھی پیدا کیے ۔ (آیت) ” جعل فیھا زوجین اثنین “ زمین میں ان کا جوڑا جوڑا بنایا ، زوجین کا ایک معنی تو نر اور مادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں میں نر اور مادہ پھل پیدا کیے ہیں اور دو دو کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایک پھل میٹھا ہے تو دوسرا پھیکا ہے ایک شریں ہے تو دوسرا ترش ہے یا ایک اعلی درجے کا ہے تو دوسرا ادنی درجے کا ، ہم روز مرہ زندگی میں ایسے پھلوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ، مختلف قسم کے پھل ہیں جن کی شکلیں مختلف ہیں ، رنگ اور ذائقے مختلف ہیں ، کہیں پھیکا پھل کام دیتا ہے تو کہیں میٹھے کی ضرورت ہوتی ہے ، کہیں ترش چیز درکار ہوتی ہے تو کہیں کسیلا کام دیتا ہے گویا انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف الانواع پھل پیدا فرمائے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے ۔ (شب وروز کا تغیر) اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ (آیت) ” یغشی الیل النھار ڈھانک دیتا ہے رات کو دن پر ، شب وروز کا آگے پیچھے آنا خودبخود نہیں بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے ، دن کو ختم کرکے اس پر رات کو اوڑھا دیتا ہے ، گویا دن پر رات کی چادر ڈال دیتا ہے ، سورة نور میں ہے (آیت) ” یقلب اللہ الیل والنھار “۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو پلٹیاں دیتا ہے ، کہیں رات بڑی ہوتی ہے اور دن چھوٹا ہوتا ہے اور کہیں دن بڑا ہوتا ہے اور رات چھوٹی ہوتی ہے ، شب وروز کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کی حرکات سے پیدا کیا ہے ، سبع کلیم یعنی متمدن دنیا میں دن اور رات کو طوالت قریب قریب ہوتی ہے البتہ زمین کے کناروں کی طرف انتہائی شمال اور انتہائی جنوب میں دن اور رات کی طوالت میں بڑا فرق ہوتا ہے کہیں دو ماہ کی رات اور دوماہ کا دن ہوتا ہے اور کہیں دن اور رات کی طوالت چھ چھ ماہ تک ہوتی ہے مگر عام متمدن دنیا میں دن اور رات چوبیس گھنٹے میں مکمل ہوجاتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت القوم یتفکرون “۔ بیشک ان تمام چیزوں میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں اگر انسان اس بات میں غور کرے کہ اللہ نے یہ چیزیں کیوں پیدا کی ہیں ، ان میں اختلاف کیوں رکھا ہے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی ہے جو یہ چیزیں پیدا کرنے پر قادر ہے تو انسان لامحالہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان تمام دلائل کو پیدا کرنے والا صرف خدا تعالیٰ ہے اور یہی بات خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو باور کراتی ہے ۔ (زمینی خطے) آگے فرمایا (آیت) ” وفی الارض قطع متجورت “۔ اور زمین میں مختلف خطے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ساری زمین ایک جیسی نہیں بلکہ متفاوت ہے مگر ہر خطہ ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے کسی علاقے کی زمین سیاہ ہے ، کسی کی سرخ کسی کی سفید ہے اور کسی خطے کی مٹیالی ، کوئی زمین سخت ہے اور کوئی نرم کوئی ریتلی ہے اور کوئی پتھریلی ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین کے مختلف خطوں سے مختلف الانواع مٹی لے کر اس سے آدم (علیہ السلام) کا مجسمہ بناؤ ، چناچہ ایسا ہی کیا گیا ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح انسان کی تخلیق مختلف قسم کی مٹی سے ہوئی اسی طرح ان کے اخلاق بھی مختلف ہیں ، مٹی کی طرح کوئی سخت مزاج ہے اور کوئی نرم مزاج بعض کلر والی زمین کی طرح نکمے ہوتے ہیں اور بعض لوگوں کے طبائع زرخیز زمین کے طرح بڑے باصلاحیت ہوتے ہیں گویا زمین کا اختلاف نوع انسانی کے اختلاف سے ملتا جلتا ہے ، حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق تمام نسل انسانی میں مٹی کا اثر قیامت تک موجود رہے گا ، بعض انسان پاکیزہ اخلاق ہوں گے اور بعض خبیث طینت ، اسی طرح بعض لوگ خوش اخلاق ہوں گے اور بعض بداخلاق ، یہ تو اس زمین کا اثر ہے اور اس دنیا کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا ، قیامت کے بعد جب ہی زمین پیدا ہوگی تو وہ میدے یا چاندی کی مانند سفید ہوگی اور اس کے کسی حصے میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ ساری زمین یکساں نوعیت کی ہوگی ۔ اس زمین کے مختلف الانواع ہونے میں یہ حکمت بھی ہے کہ ہر حصے سے مختلف قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں کہیں سے پیڑول نکل رہا ہے تو کہیں سے کوئلہ اور لوہا برآمد ہو رہا ہے کہیں مر مر کا پتھر پایا جاتا ہے تو کہیں سیمنٹ اور چونا ملتا ہے کہیں سونا چاندی ہے اور کہیں جواہرات پائے جاتے ہیں ، یہ تمام چیزیں انسانی ضروریات کی ہیں اور ایک حصے کی چیزیں دوسرے حصے کے بھی کام آتی ہیں اگر ساری زمین ایک سی ہوتی تو ایسی مختلف ضروریات زندگی کی تکمیل کیسے ممکن ہوتی ؟ (باغات اور کھیتیاں) فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں مختلف خطے پیدا کیے ہیں (آیت) ” وجنت من اعناب “۔ اور انگوروں کے باغات بھی اللہ نے پیدا کیے ہیں منجملہ کھجور ‘ انار کے آم اور انگور بھی بہشتی پھل ہے ، (آیت) ” وزرع “ اور اللہ نے کھیتیاں بھی پیدا کی ہیں ، جن میں اناج ، پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جو انسانی اور حیوانی زندگی کے لیے لازمی ہیں ، (آیت) ” ونخیل “ اور اللہ نے کھجوریں بھی پیدا فرمائی ہیں ، کھجور کا درخت بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے اس کی سینکڑوں قسمیں ہیں جن کے مختلف ذائقے ہیں ، ان کی شکلیں اور جسامت بھی مختلف ہے ۔ کوئی لمبی ہے اور چھوٹی ، کوئی سیاہ ہے اور کوئی سرخ ، کوئی گٹھلی والی ، اور کوئی بغیر گٹھلی کے ، کوئی جلدی استعمال کرنے والی ہوتی ہے اور کوئی لمبے عرصہ تک کارآمد رہتی ہے ، کھجور کے درخت بھی کوئی چھوٹے ہوتے ہیں اور کوئی بہت لمبے ، بعض درخت صدیوں تک قائم رہتے ہیں اور پھل بھی دیتے رہتے ہیں ، جب کہ اس کی بعض اقسام کم عمر بھی ہوتی ہیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ کھجور کے درخت کو مومن انسان کے ساتھ بہت حد تک مشابہت ہے ، جس طرح مومن انسان کے ساتھ بہت حد تک مشابہت ہے جس طرح مومن ہمیشہ سرسبز رہتا ہے اسی طرح کھجور کا درخت بھی سدا بہار ہے جس طرح اس درخت سے لوگ ہر وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اسی طرح مومن کے اعمال واخلاق بھی انسانوں کے کام آتے ہیں کیونکہ مومن کا دل نور ایمان سے منور اور اس کا عقیدہ پاک ہوتا ہے ، جس طرح کھجور کا درخت اوپر کی طرف فضا میں پھیلتا ہے اسی طرح مومن کے اعمال واخلاق بھی پھیلتے ہیں جس طرح کھجور کے درخت کی چوٹی بہت بلند ہوتی ہے ، اسی طرح مومن کے اخلاق بھی بہت بلند ہوتے ہیں ۔ (مختلف الاقسام درخت) اللہ نے کھجور کے درخت کے تذکرے میں فرمایا (آیت) ” صنوان وغیر صنوان “۔ کہ بعض درخت ایک جڑ سے دو تنے والے ہوتے جب کہ بعض کا ایک جڑ پر ایک ہی تنا ہوتا ہے ، اس قسم کے درخت کھجور کے بھی ہوتے ہیں اور بعض دوسرے بھی ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی حضرت عباس ؓ سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوگئی ، حضور کو پتہ چلا تو فرمایا اے عمر ؓ ! کیا تم نہیں جانتے ” انما العم صنوابیہ “ کہ چچا باپ کی شاخ ہوتا ہے یعنی جس طرح کسی درخت کی ایک جڑ سے دو تنے پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح ایک دادا کی اولاد میں باپ اور چچا دو تنے یا دو شاخیں ہوتی ہیں ، فرمایا عباس ؓ میرے چچا اور واجب الاحترام ہیں ، یاد رہے کہ حضور ﷺ کے چار چچا تھے ، جنہوں نے حضور ﷺ کا زمانہ پایا ، ان میں سے حضرت عباس ؓ اور حضرت حمزہ ؓ نور ایمان سے مشرف ہوئے جب کہ ابولہب اور ابو طالب آپ کا ہمدرد تھا ۔ اس کے ایمان نہ لانے کا حضور کو بڑا افسوس تھا مگر اللہ نے فرمایا کہ یہ آپ کے اختیار میں نہیں بلکہ میرے اختیار میں ہے ، میں بہتر جانتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں ، ہدایت دیتا ہوں ۔ فرمایا مختلف قسم کے درخت ہوتے ہیں (آیت) ” یسقی بمآء واحد “ جنہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل “۔ اور ہم فضیلت دیتے ہیں بعض کو بعض پر کھانے میں ، بعض نہایت ہی خوش ذائقہ ہوتے ہیں ، جبکہ بعض پھیکے ، ترش یا بدذائقہ ، حالانکہ پانی سب کو ایک ہی ملتا ہے ، امام رازی (رح) ، امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں نیچر یوں کا رد ہے جن کا دعوے ہے کہ ہر کام نیچر کے تحت خود بخود ہورہا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو ایک ہی کھیت میں ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والا کوئی خربوزہ میٹھا اور کوئی پھیکا نہ ہوتا بلکہ فطرت کے قانون کے مطابق سب کا رنگ اور ذائقہ ایک ہی ہوتا ، مگر ایسا نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پھلوں کو پیدا کرنا نیچر کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کا شاہکار ہے جس نے بعض درختوں اور پھلوں کو بعض دوسروں پر فضیلت بخشی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون “۔ بیشک ان تمام چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں ، زمین کے مختلف خطے ، باغات ، کھیتیاں اور کھجوروں کے درخت نشانات قدرت میں سے ہیں ” ففی کل شیء دلیل انہ واحد “۔ ان میں سے ہر چیز میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات واحدہ لاشریک ہے ، مگر یہ دلائل ان لوگوں کو نظر آتے ہیں جو صاحب عقل ہیں ، اور غور وفکر سے کام لیتے ہیں ، جو لوگ عقل کو استعمال نہیں کرتے ، ” الصم البکم الذین لا یعقلون “۔ (انفال) یہ بہرے گونگے اور بےعقل ہیں ، نیز فرمایا (آیت) ” اولئک کالانعام بل ھم اضل “ یہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کو دلائل قدرت نظر آتے ہیں مگر فلاح نہیں پائیں گے
Top