Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور یہ لوگ خدا کیلئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (اور) وہ ان سے پاک ہے اور پنے لئے (بیٹے) جو مرغوب (و دل پسند) ہیں۔
57۔ 59۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی بےوقوفی اور ان کا بےجان چیزوں سے بھی بدتر ہونا فرما کر اس آیت میں ایک اور بیوقوفی ان کی بیان فرمائی ہے اس بیوقوفی کی دو شاخیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ مشرک لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے دوسرے یہ کہ اپنی اولاد میں لڑکی پیدا ہونے سے بہت چڑتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے یہ ایک رسم ٹھہرا رکھی تھی کہ لڑکی پیدا ہو کر چھ برس کے اندر اپنی موت سے مرگئی تو خیر ورنہ جنگل میں ایک گڑھا کھود کر اچھے کپڑے پہنا کر اس لڑکی کو جنگل میں لے جاتے تھے اور اسے گڑھے میں جھانکنے کو کہتے جب وہ جھانکتی تو اس کو گڑھے میں دھکا دیتے تھے اور اوپر سے مٹی ڈال کر اس کو زندہ دبا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں ان کی بیوقوفی کی ہیں اللہ اولاد شریک سب سے پاک ہے اس کو اولاد سے کیا تعلق علاوہ اس کے جس اولاد کو خود یہ لوگ نہیں پسند کرتے اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا یہ اور بیوقوفی ہے اسلام نے مشرکوں کی اس لڑکی کے پیدا ہونے سے چڑنے کی رسم کو مٹایا اور لڑکی پیدا ہو تو اس کو محبت سے پالنے پر اجر کا وعدہ اسلام میں آیا ہے۔ چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو شخص لڑکی کے پالنے اور اس کے شادی بیاہ کرنے کا بوجھ اٹھاوے گا تو عاقبت میں وہ لڑکی دوزخ کی آگ کی ڈھال بن جاوے گی 1 ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو مشرک شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو اس کے زمانہ شرک کے سب گناہ ہوجاتے ہیں 2 ؎۔ معتبر سند سے مسند بزار میں قیس بن عاصم ؓ سے روایت ہے جس میں قیس بن عاصم ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت میں نے اسلام سے پہلے چند زندہ لڑکیوں کو گاڑ دیا ہے اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر لڑکی کے معاوضہ میں ایک غلام آزاد کرنا چاہیے یا ایک اونٹ کی قربانی کرنی چاہے 3 ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عمر و بن العاص ؓ کی حدیث میں سوا زندہ لڑکیوں کے زمین میں دبا دینے کے اسلام سے پہلے کے اور گناہوں کا ذکر ہے اور زندہ لڑکیوں کے زمین میں دبا دینے کا حکم وہ ہے جس کا ذکر قیس بن عاصم ؓ کی حدیث میں ہے کہ اسلام کے بعد بھی اس جرم کی سزا فدیہ سے بدل جاتی ہے۔ جو فدیہ ایک غلام کے آزاد کرنے یا ایک اونٹ کی قربانی سے پورا ہوسکتا ہے۔ 1 ؎ الترغیب ص 46 ج 2 باب الترغیب فی التفقتہ علی الزوجۃ والعیال الخ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 14 کتاب الایمان۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 478 ج 4 تفسیر سورت تکویر۔
Top