Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 89
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت شَهِيْدًا : ایک گواہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ اَنْفُسِهِمْ : ان ہی میں سے وَجِئْنَا : اور ہم لائیں گے بِكَ : آپ کو شَهِيْدًا : گواہ عَلٰي هٰٓؤُلَآءِ : ان سب پر وَنَزَّلْنَا : اور ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : الکتاب (قرآن) تِبْيَانًا : (مفصل) بیان لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت وَّبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں کے لیے
اور (وہ دن بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جس دن ہم ہر امت سے ایک ایک گواہ انہی میں سے اٹھائیں گے اور ان (سب) لوگوں کے مقابلہ میں آپ کو گواہ بناکر لائیں گے،139۔ اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے، ہر بات کو کھول دینے والی اور مسلموں کے حق میں ہدایت اور رحمت اور بشارت،140۔
139۔ یعنی کآپ کی شہادت عالمگیر ہوگی، سب کے مقابلہ میں حجت ہوگی۔ شہادت تو ظاہر ہے کہ آپ ﷺ بھی اپنی ہی امت کے متعلق دیں گے لیکن آپ ﷺ کی امت دعوت تو ساری انسانی آبادی ہے، اس لیے قدرۃ آپ ﷺ کی شہادت بھی عالمگیر کہی ہوگی، (آیت) ” فی کل امۃ شھیدا “۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 133۔ (آیت) ” من انفسھم “۔ لفظ عام ہے۔ یہ گواہ یا پیغمبر (علیہ السلام) ان امتوں کے خواہ ہم نسب ہوں، یا ہم وطن ہوں۔ (آیت) ” وجئنا بک شھیدا علی ھؤلآء “۔ ھؤلاء سے عام طور پر مراد امت محمدی سے لی گئی ہے۔ امتک (بیضاوی۔ مدارک) اے الذین بعثت الیھم (معالم) بعض نے ھؤلاء سے مراد انبیاء سابقین کو بھی لیا ہے۔ یعنی آنحضور ﷺ ان سب انبیاء علیھم السلام پر گواہ ہیں۔ لیکن محققین نے اس قول کو ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ واما حمل ھؤلاء الشھداء علی الانبیاء فبعید (کبیر) (آیت) ” فی کل امۃ “۔ امۃ سے مراد ہر دور (قرن) یا جماعت ہے۔ واعلم ان الامۃ عبارۃ عن القرن والجماعۃ (کبیر) ۔ 140۔ یعنی اس کتاب اعظم سے نفع دنیوی واخروی، مادی وروحانی، تو بس وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو اس کے ماننے والے ہوں گے، جو پہلے اس کی تصدیق توکریں، نہ ماننے والوں کے لئے اس کا وجود اس کے عدم کے برابر ہے۔۔ پیدائشی نابینا کے لئے آفتاب عالمتاب کا عدم ووجود یکساں ہے۔ (آیت) ” تبیانا لکل شیء “۔ کل شیء سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں، جن کا تعلق اعتقاد اور عمل سے ہے۔ یعنی دین و شریعت کے سارے اجزاء اجمالا یا تفصیلا اس کے اندرآگئے۔ یعنی دین و شریعت کے سارے اجزاء اجمالا یا تفصیلا اس کے اندر آگئے۔ یعنی بہ بیان کل شیء من امور الدین بالنص والدلالۃ (جصاص) بیانا بلیغا لکل شیء من امور الدین علی التفصیل اوالاجمال بالاحالۃ الی السنۃ اولقیاس (بیضاوی) رسول اللہ ﷺ نے جن وقائق احکام کی تشریح کی ہے، وہ سب کتاب اللہ ہی سے ماخوذ ہے، اور اسی لئے نبی کا حکم بھی خدا ہی کا حکم سمجھا گیا ہے۔ فما من حادثۃ جلیلۃ ولا رقیقۃ الا وللہ فیھا حکم قد بینہ فی الکتاب نصا اودلیلا فما بینہ النبی ﷺ فانما صدر عن الکتاب (جصاص) اور فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ اجماع اور اجتہاد و قیاس فقہاء سے جو احکام ومسائل ثابت ہیں، وہ بھی سب اسی تبیان کتاب اللہ کے تحت میں داخل ہیں۔ وما حصل علیہ الاجماع فمصدرہ ایضا من الکتاب لان الکتاب قددل علی صحۃ حجۃ الاجماع وما اوجبہ القیاس واجتھاد الرای وسائر ضروب الاستدلال من الاستحسان و قبول خبر الواحد جمیع ذالک من تبیان الکتاب (جصاص) واما الفقھاء فانھم قالوا القران انما کان تبیانا لکل شیء لانہ یدل علی ان الاجماع وخبر الواحد والقیاس حجۃ فاذا ثبت حکم من الاحکام باحد ھذہ الاصول کان ذلک الحکم ثابتا بالقران (کبیر) اما فی الاحکام المنصوصۃ فظاھر وکذا فی ما ثبت بالسنۃ او بالاجماع اوبقول الصحابۃ اوبالقیاس لان مرجع الکل الی الکتاب (مدارک)
Top