Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 89
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠ ۧ
وَيَوْمَ
: اور جس دن
نَبْعَثُ
: ہم اٹھائیں گے
فِيْ
: میں
كُلِّ اُمَّةٍ
: ہر امت
شَهِيْدًا
: ایک گواہ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مِّنْ اَنْفُسِهِمْ
: ان ہی میں سے
وَجِئْنَا
: اور ہم لائیں گے
بِكَ
: آپ کو
شَهِيْدًا
: گواہ
عَلٰي هٰٓؤُلَآءِ
: ان سب پر
وَنَزَّلْنَا
: اور ہم نے نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: الکتاب (قرآن)
تِبْيَانًا
: (مفصل) بیان
لِّكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کا
وَّهُدًى
: اور ہدایت
وَّرَحْمَةً
: اور رحمت
وَّبُشْرٰى
: اور خوشخبری
لِلْمُسْلِمِيْنَ
: مسلمانوں کے لیے
اور یاد کرو جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ ان پر انہی میں سے اٹھائیں گے اور آپ ﷺ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ ﷺ پر کتاب اتاری ہے ہر چیز کو کھول دینے کے لیے اور وہ ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرمانبرداروں کے لیے۔
وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَہِیْدًا عَلٰی ھٰٓؤْلَآئِ ط وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْ ئٍ وَّھُدًے وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 89) (اور یاد کرو جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ ان پر انہی میں سے اٹھائیں گے اور آپ ﷺ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ ﷺ پر کتاب اتاری ہے ہر چیز کو کھول دینے کے لیے اور وہ ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرمانبرداروں کے لیے۔ ) اس آیت میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ اس سے پہلے آیت نمبر 84 میں گزر چکا ہے۔ البتہ فرق دونوں میں یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں ذکردوسری امتوں اور ان کی طرف مبعوث کیے جانے والے رسولوں کا تھا۔ خطاب بظاہر انھیں سے تھا لیکن روئے سخن قریش مکہ کی طرف تھا۔ گویا قریش مکہ کو درحدیثِ دیگراں کے انداز میں بات سمجھائی جارہی تھی۔ اب اس آیت کریمہ میں براہ راست آنحضرت ﷺ سے خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ جس وقت ہم دوسری امتوں پر گواہی کے لیے رسولوں کو کھڑا کریں گے اسی وقت آپ ﷺ کو ہم اس امت پر گواہ کے طور پر لائیں گے۔ آپ ﷺ براہ راست چونکہ اہل عرب کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اس لیے آپ ﷺ کی گواہی اہل عرب پر ہوگی کہ میں نے ان تک اللہ تعالیٰ کا دین بےکم وکاست پہنچا دیا ہے اور میں نے امانت کا حق ادا کردیا ہے اور ان کے ساتھ خیرخواہی کرنے میں، میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ اس گواہی کے بعد جو لوگ اہل عرب میں سے ایمان نہیں لائے وہ پکڑے جائیں گے اور جو ایمان لا چکے اور دین کا حق ادا کیا وہ اپنے بہتر انجام کو پہنچیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے شادکام ہوں گے۔ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت نہ وقتی ہے نہ محدود۔ یعنی نہ تو آپ ﷺ کسی خاص قوم کی طرف آئے ہیں اور نہ آپ ﷺ ایک وقت کے لیے نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں بلکہ آپ ﷺ کی رسالت تمام نوع انسانی کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کی گواہی اہل عرب تک تو معاملے کو صاف کردے گی اور اللہ تعالیٰ کی حجت تمام کردے گی لیکن وہ لوگ جو جزیرہ عرب سے باہر رہتے ہیں یا جو اگلی نسلوں میں پیدا ہوں گے ان کے بارے میں گواہی کون دے گا کیونکہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول آئے گا۔ چناچہ اس ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی امت پر ڈالا اور انھیں شہداء علی الناس قرار دیا۔ چناچہ اس پر ہم سورة البقرہ میں جو نوٹ لکھ چکے ہیں اس کا اعادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ امت وسط کا فریضہ منصبی شہادتِ حق لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ” امت محمدیہ کو ایک معتدل اور بہترین امت اس لیے بنایا ہے تاکہ وہ لوگوں پر حق کے گواہ بنیں۔ “ یہ اس امت کا فریضہ منصبی اور اس کے قیام کی ضرورت کا بیان ہے۔ اسی منصب پر بنی اسرائیل کو فائز کیا گیا تھا۔ انھوں نے مسلسل اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہدوپیمان توڑے۔ اس کی شریعت میں تبدیلیاں کیں، اس کی طراط مستقیم گم کردی اور اس کے مقرر کیے ہوئے قبلہ سے منحرف ہوگئے اور جن شہادتوں کے وہ امین بنائے گئے تھے ان شہادتوں کا حق ادا کرنے سے منحرف ہوگئے۔ ایسی صورتحال میں نوع انسانی کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ضرورت اگر کوئی ہوسکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی امت برپا کرے جو اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر قائم ہو جو خود عدل کی تصویر ہو، اور دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے اٹھے۔ اسی عدل و احسان کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے اس دین کی خود بھی عامل بنے اور قیامت تک لوگوں کے سامنے اس دین کی گواہی بھی دے۔ سب سے پہلے اسی گواہی کے منصب پر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کو کھڑا کیا گیا تھا کہ ان کا طریقہ اور عمل امت کے لیے نمونہ بھی ٹھہرے اور سنت بھی بنے۔ آیئے اب دیکھتے ہیں کہ انھوں نے دنیا میں دین کی اس گواہی کا فرض کیسے انجام دیا۔ جب آپ ﷺ دنیا میں نبوت دے کر مبعوث کیے گئے تو پوری دنیا میں ایک شخص بھی اللہ تعالیٰ کو ماننے والا، اس کی اطاعت کرنے والا اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزارنے والا موجود نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے جب لوگوں کے سامنے گواہی کا حق ادا کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی حاکم حقیقی اس کائنات اور تم سب کا اصل مالک اور آقا ہے۔ تم اسی کا رزق کھاتے ہو، اسی نے تمہیں زندگی دی ہے، وہی تمہیں زندگی کی تمام نعمتیں عطا کرتا ہے، اسی نے تمہیں عقل و شعور سے بہرہ ور کیا ہے لیکن یہ عقل و شعور سے بہرہ ور زندگی اور یہ نعمتوں سے گراں بار زندگی اس لیے تو نہیں دی کہ ایک دن وجود میں آئے اور پھر خود رو پودے کی طرح مل دل کر ختم ہوجائے۔ اس نے ہر دور میں زندگی گزارنے کے لیے رہنما کتابیں بھیجیں، معلم اور مربی بنا کر رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ وہ تمہیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھائیں اور یہ بتائیں کہ تمہارا آقا کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ میں بھی اسی لیے بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر ایک کتاب اتاری گئی ہے اور میں اپنی سچائی اور کتاب کے برحق ہونے کی گواہی دیتا ہوں۔ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ، میری دل آویز شخصیت، میری بےداغ سیرت و کردار، دیانت اور امانت سے بھرپور میرے معاملات اور مکارمِ اخلاق سے روشن میرے طوراطوار تمہارے سامنے ہیں، میری زندگی کا ایک ایک لمحہ تمہارے سامنے گزرا ہے۔ ان میں کہیں بھی جھوٹ اور شک کا شائبہ نہیں، یہ وہ سچی گواہی ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ ہم سب کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہورہا ہے۔ ہمارا کوئی عمل بھی ہمارے خالق ومالک کے علم سے باہر نہیں۔ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ ہم سب کو اپنے سامنے کھڑا کرکے ہمارے اعمال کا حساب لے گا۔ سوچ لو اس وقت تمہارا جواب کیا ہوگا۔ میں نہایت ہمدردی اور خیرخواہی سے تمہارے سامنے وہ نسخہء شفا پیش کررہا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتارا ہے اور جس پر عمل کرکے تم اپنی زندگی اور آخرت کو سنوار سکتے ہو۔ لیکن اس کے جواب میں قوم نے وہی کیا جو ہر قوم اپنے پیغمبروں سے کرتی آئی ہے۔ زندگی کا کوئی دکھ ایسا نہیں جو آپ ﷺ کو نہ پہنچایا گیا ہو۔ نماز پڑھتے ہوئے آپ ﷺ کے سر پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی جسے حضرت فاطمہ ( رض) نے کسی کی مدد سے بڑی مشکل سے آپ ﷺ کے سر سے اتارا اور آپ ﷺ سر اٹھانے کے قابل ہوسکے۔ آپ ﷺ کے گلے میں پٹکا ڈال کر آپ ﷺ کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ کے سر مبارک پر راکھ ڈالی گئی، لیکن آپ ﷺ نے ہر تکلیف اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا۔ وہ گالیاں دیتے رہے، آپ ﷺ دعائیں دیتے رہیں۔ انھوں نے آپ ﷺ کے لیے زندگی دشوارتر کردی، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے رحمتیں مانگتے رہے۔ مکہ نے جب بری طرح آپ ﷺ کی طرف سے اپنے دل و دماغ بند کرلیے تو آپ ﷺ نے طائف کا رخ کیا۔ لیکن طائف کے اوباشوں نے آپ ﷺ کی دعوت کے جواب میں ظلم و بربریت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ طائف کا کوئی پتھر ایسا نہیں جس نے آپ ﷺ کے جسم مبارک کے کسی نہ کسی حصے کو زخمی نہ کیا ہو۔ آپ ﷺ کا وہ خون جس کا جواب کوثر و تسنیم میں بھی نہیں، آپ ﷺ کے زخموں سے بہتا رہا۔ آپ ﷺ کا وہ جسمِ اطہر جس کا ایک ایک رونگٹا عرش معلی سے بھی افضل ہے، وہ زخموں سے خونچگاں ہوتا رہا۔ آپ ﷺ کی وہ عزت و حرمت جس کے دامن میں فرشتے نماز پڑھنا فخر محسوس کریں ان اوباشوں کی زبانوں سے گھائل ہوتی رہی۔ آپ ﷺ کی وہ شخصیت جس کا جواب پوری کائنات میں نہیں، اسے طائف میں بری طرح ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پھر آخر ایک وقت آیا کہ آپ ﷺ کو وطن بھی چھوڑتا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا گھر جو آپ ﷺ کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا اس سے بھی جدائی برداشت کرنا پڑی۔ مدینہ کی سرزمین نے آپ ﷺ کی قدم بوسی کی لیکن دشمن نے یہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ مسلسل آپ ﷺ کو لڑائیوں میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ آپ ﷺ کے عزیزوں کے لاشے اٹھے، آپ ﷺ خود میدانِ جنگ میں زخمی ہوئے، وہ دندانِ مبارک شہید ہوئے، جن سے قرآن پاک کی شعاعیں پھوٹا کرتی تھیں اس دہن سے خون بہا جس کا لعاب بیماروں کی شفا اور کڑوے پانی کو میٹھا کردیتا تھا۔ سالوں تک جاں سپاری اور جاں فروشی کے جاں گسل لمحات سے گزرنے کے بعد وہ معاشرہ وجود میں آیا جو اس کائنات کا حاصل تھا۔ اس انسان نے جنم لیا صدیوں سے زندگی جس کی راہ تک رہی تھی۔ وہ عدالتیں وجود میں آئیں جہاں صرف اللہ تعالیٰ کا قانون فیصلے کرتا تھا۔ وہ بازار اور منڈیاں بنیں جہاں پر کاروبار کرنے والے اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے تھے۔ وہ گلی کو چے وجود میں آئے جن میں جرم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہروں کے شہر ایسے لوگوں سے معمور ہوئے جیسے لوگوں کو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ رت بدل گئی، موسم تبدیل ہوگیا، انسانیت کی قسمت سنور گئی۔ انسانی کو ایک ایسی بہار نصیب ہوئی جس میں صرف خدا خوفی، راست بازی، انسان دوستی، علم پروری اور آخرت کی جستجو کے پھول کھلتے تھے۔ 12 لاکھ مربع میل علاقے پر اس انقلاب کی ٹھنڈی چھائوں پھیل گئی اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسے انسانوں کی ایک مضبوط قوم تیار ہوگئی جو حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتی تھی۔ تب آپ ﷺ نے آخری حج میں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو ! ہوسکتا ہے اگلے سال تم مجھے نہ دیکھو۔ قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ جس شہادتِ حق کے منصب پر مجھے فائز کیا گیا تھا اس منصب کی ذمہ داریوں کو میں نے ادا کیا یا نہیں ؟ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا دین تم تک پہنچایا ؟ کیا میں نے امانت کا حق ادا کیا ؟ میں نے تمہارے ساتھ خیرخواہی کی ؟ ایک ایک سوال پر لوگ چیخ رہے تھے کہ یارسول اللہ تعالیٰ ! آپ ﷺ نے اپنی ذمہ داری کا پورا حق ادا کردیا۔ آپ ﷺ نے تین دفعہ آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر فرمایا کہ یا اللہ ! تو گواہ رہ تیری مخلوق میرے بارے میں گواہی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ کی عمر لے کر نہیں آئے تھے۔ 63 سالہ عمر طبعی اور 23 سالہ عمر رسالت گزار کر آپ ﷺ اپنے اللہ تعالیٰ سے جا ملے لیکن ووہ شہادتِ حق جس کی ذمہ داری آپ ﷺ نے ادا کی تھی اسے بعد کی نسلوں کے لیے اس امت کے سپرد کرگئے جسے آپ ﷺ نے تربیت کیا تھا اور آپ ﷺ نے مختلف وقتوں میں یہ بات سمجھائی کہ لوگو ! تم میں سے ہر نسل اس امانت کی ادائیگی کی ذمہ دار ہے۔ کل کو تم سے پوچھا جائے گا کہ جس طرح میں نے یہ حقِ امانت ادا کیا تھا کیا تم نے بھی ایسا ہی کیا ؟ کیا تم نے ویسے ہی دکھ اٹھائے جیسے میں نے اٹھائے تھے ؟ کیا تم نے اسی احساسِ ذمہ داری کا ثبوت دیاجی سے میں نے دیا تھا ؟ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے دین کو گھر سے لے کر ایوانِ حکومت تک نافذ اور برپا کرکے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا دین اب بھی قابل عمل ہے ؟ جس طرح آپ ﷺ نے صحابہ ( رض) کے سپرد یہ ذمہ داری کی اور انھیں بار بار اس کا احساس بھی دلایا۔ اسی طرح قرآن کریم کی یہ آیت قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو یہ احساس دلاتی رہے گی کہ کل کو تم سے اسی ذمہ داری کے حوالے سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی اگلی نسل تک یہ امانت پہنچائی یا نہیں پہنچائی ؟ کیا تم نے یہ ثابت کیا کہ ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ سے چاہیے ؟ بھروسے کے قابل صرف وہی ذات ہے، سرصرف اسی کے سامنے جھکنا چاہیے، امیدیں صرف اسی سے باندھنی چاہییں، آئین اسی کا واجب الاطاعت ہے۔ وہی ہے جو مطاع مطلق ہے۔ اس کے سوا کسی کی غیرمشروط اطاعت نہیں ہوسکتی۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی کا حکم نہیں چل سکتا۔ اس کی اطاعت کا وہ طریقہ معتبر ہوگا جو طریقہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے چھوڑا ہے، جسے ہم سنت رسول ﷺ کہتے ہیں۔ قرآن بار بار پوچھتا ہے کہ لوگو ! بتائو جو امانت حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ( رض) چھوڑ گئے، وہ کہاں ہے ؟ وہ ایثار، وہ استقامت، وہ ذات رسالتِ مآب ﷺ سے بےپناہ محبت، جو حضرت ابوبکر صدیق ( رض) ہمارے حوالے کرگئے تھے، ووہ کہاں ہے ؟ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کا وہ عدل کہاں ہے ؟ جو وہ دنیا کو دے کر گئے تھے اور حضرت عثمان غنی ( رض) کی وہ شرم و حیا جو ان کی شناخت بن گئی تھی، کہاں ہے ؟ اور کہاں ہے وہ حضرت علی ( رض) کا فقر، جس پر انھیں فخر تھا اور جس کی انھوں نے وراثت چھوڑی تھی ؟ اسلام کا وہ پورا نظام زندگی جو صحابہ ( رض) کے گھروں سے لے کر ان کے معاشرے کے ایک ایک ادارے اور ان کی ریاست کے ایک ایک شعبے اور ان کی حکومت کے ایک ایک ایوان میں برسراقتدار تھا۔ وہ ہم نے کہاں کھودیا ؟ ہمارے گھروں میں فقر نہیں سرمایہ داری ہے، ہمارے پاس عدل نہیں جانب داری ہے، ہمارے پاس رحم و مرومت نہیں ظلم اور جہالت ہے، ہمارے پاس شرم و حیا نہیں ہر چورا ہے پر ہم نے حوا کی بیٹیوں کو بےحیائی کی تصویر بنا کر اس طرح آویزاں کردیا ہے کہ حیا کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم سے قرآن کریم کی آیات کھرچی جارہی ہیں۔ جہاد جسے اسلام کی چوٹی کہا گیا ہے وہ ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کے ایوانوں سے اللہ تعالیٰ کے دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور طاقتور حکمرانوں کا کلمہ پڑھا جارہا ہے لیکن قرآن کریم ہم سے بار بار کہہ رہا ہے کہ سوچو ! کل کو حق شہادت کے حوالہ سے تم سے پوچھا جائے گا، کیا جواب دو گے ؟
Top