Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 89
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت شَهِيْدًا : ایک گواہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ اَنْفُسِهِمْ : ان ہی میں سے وَجِئْنَا : اور ہم لائیں گے بِكَ : آپ کو شَهِيْدًا : گواہ عَلٰي هٰٓؤُلَآءِ : ان سب پر وَنَزَّلْنَا : اور ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : الکتاب (قرآن) تِبْيَانًا : (مفصل) بیان لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت وَّبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں کے لیے
اور (وہ ہولناک دن بہر حال یاد رکھنے کا ہے کہ) جس دن ہم اٹھا کھڑا کریں گے ہر امت میں ایک گواہ ان (کے کئے کرائے) پر گواہی دینے کے لئے خود انہی میں سے، اور ہم آپ کو (اے پیغمبر) کتاب کو، کامل بیان بنا کر (ضروریات دین سے متعلق) ہر چیز کے لئے، اور سراسر ہدایت، عین رحمت، اور عظیم الشان خوشخبری کے طور پر، (اس کے حضور) سر تسلیم خم کردینے والوں کے لئے،2
186۔ روز قیامت کی تذکیر مکرر اور اس کی عظمت شان :۔ سو روز قیامت کی تذکیر مکرر کے طور پر فرمایا گیا ” اور یاد کرو اس دن کو کہ جس دن ہم اٹھا کر کھڑا کردیں گے ہر امت سے ایک گواہ انہی میں سے “ یعنی اس امت کے پیغمبر کو جو ان کے بارے میں گواہی دے گا کہ یہ لوگ ایمان لائے تھے یا نہیں۔ (ابن کثیر، مراغی، محاسن التاویل، صفوۃ التفاسیر وغیرہ ) ” اور آپ ﷺ کو اے پیغمبر ان لوگوں پر گواہ بنا کرلائیں گے “ یعنی آپ ﷺ کی امت کے ان لوگوں پر کہ انہوں نے آپ ﷺ کو کیا جواب دیا تھا۔ (المراغی وغیرہ) سو اس ہولناک دن کیلئے تیاری کرو کہ اس کی تیاری کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے اور بس۔ سو اس ارشاد سے قیامت کے اس یوم عظیم کے بارے میں دوبارہ اور مکرر تذکیر ویاد دہانی فرمائی گئی جس سے اس کی عظمت شان واضح ہوجاتی ہے۔ 187۔ حضرت خاتم الانبیاء کی گواہی اپنی امت پر :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور ہم آپ ﷺ کو اے پیغمبر ! گواہ بنالائیں گے ان سب پر “ یعنی آپ ﷺ کی اپنی امت پر (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، جامع البیان، وغیرہ) اور گواہ کیلئے جس چیز کی وہ گواہی دے اس کا علم ہونا ضروری ہوتا ہے نہ کہ وہاں موقع پر حاضر اور موجود ہونا۔ جیسا کہ ہم سب جنت اور دوزخ وغیرہ کی گواہی دیتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ الحمد للہ۔ مگر نہ ہم نے ان کو دیکھا نہ موت سے پہلے وہاں ہمارے جانے کا کوئی سوال ہے۔ پس اہل بدعت کا اس آیت کریمی سے اپنے شرکیہ عقائد پر استدلال کرنا باطل و مردود ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد حق ترجمان سے اس کی مزید تشریح بھی اسی طرح فرما دی ہے۔ چناچہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس موقع پر میں وہی کہوں گا جو اللہ کے بندے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اے اللہ میں جب تک ان لوگوں کے اندر موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ اور اب اگر ان کو عذاب دیں تو بھی ٹھیک ہے کہ یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر تو ان کی بخشش فرما دے تو بھی بجا، کہ تو سب پر غالب اور حکمت والا۔ ہے تجھ سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں “ (وکنت علیہم شھیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیء شہید) (المائدۃ : 117) اس مسئلے کی مزید تفصیل کیلئے سورة بقرہ کی آیت نمبر 143 کی تفسیر و تشریح کی طرف بھی رجوع کیا جاسکتا ہے کہ وہاں اس بارے کافی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ والحمد للہ۔ بہرکیف قیامت کے اس ہولناک دن میں ہر پیغمبر اپنی امت پر گواہ ہوگا کہ ان لوگوں نے ان کو کیا جواب دیا تھا اور ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا تھا۔ اور حضور ﷺ اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ یہی مضمون بعینہ سورة نساء کی آیت نمبر 41۔ 42 میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ 188۔ کتاب الہی اتمام حجت کا سب سے بڑا ذریعہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور ہم ہی نے اتارا آپ ﷺ پر اے پیغمبر اس کتاب عظیم کو “ یعنی قرآن حکیم کو۔ جس کی عظمتوں کا کوئی کنارہ نہیں۔ اور جو سابقہ تمام آسمانی کتابوں کی محافظ اور نگہبان ہے۔ اور جس جیسی دوسری کوئی کتاب نہ دیکھی ہوئی ہے نہ قیامت تک کبھی ممکن ہوسکتی ہے۔ اور جو انسانوں کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے۔ اور جس کی اتباع و پیروی کے بغیر نجات کی اور کوئی صورت اب ممکن نہیں۔ سو اس ارشاد سے اتمام حجت کے ذریعے کی وضاحت فرما دی گئی کہ دنیا میں حق کی گواہی اور اتمام حجت کا ذریعہ یہی کتاب عظیم ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کے اس فرض منصبی کے تقاضے کی تکمیل کیلئے ہم نے آپ پر اس کتاب عظیم کو نازل کیا ہے کہ اس کے نزول اور اس کی تعلیم و تبلیغ کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں خبر نہیں تھی۔ (ان تقولوا ماجاءنا من م بشیر ولا نذیر فقد جاء کم بشیرونذیر واللہ علی کل شیء قدیر) (المائدۃ : 109) اس کے بعد ہر کسی کو اس کے کئے کا بھگتان ہر حال بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 189۔ (بیانا لکل شیئ) کا مطلب ؟:۔ سو اس کتاب عظیم کو ہر چیز کیلئے بیان شافی و کافی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یعنی دین و ہدایت سے متعلق ہر چیز کیلئے کہ اس کتاب حکیم کا اصل موضوع ہدایت و ارشاد ہی ہے۔ اور ہر کتاب کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے موضوع سے متعلق ہر چیز کو حاوی اور شامل ہو۔ اور موضوع سے غیر متعلق کوئی چیزوں کو اس میں ذکر کیا جائے۔ اسی لئے حضرات مفسرین کرام ” عموم کل شیء مایناسبہ “ ہر چیز کو عموم وہی معتبر ہوتا ہے جو اس کے مناسب ہو “ کے قاعدہ کلیہ کے مطابق ایسی آیات کریمہ کے عموم کو امور دین و ہدایت ہی کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں۔ اور وہ اس کی تعبیر وادائیگی اس طرح کے الفاظ سے کرتے ہیں۔” ای ما یحتاج الیہ فی امر الدین “ وغیرہ (ابن جریر، ابن کثیر جامع البیان، صفوۃ التفاسیر، قرطبی، معالم، روح المعانی، مدارک، ابو السعود وغیرہ وغیرہ) پس اہل بدعت اور ان کے بعض بڑوں کا اس طرح کی آیات کریمہ کے عموم سے اپنے شرکیہ عقائد کیلئے دلیل کشید کرنا باطل و مردود ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ وضلال سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 190۔ قرآن حکیم سراسر ہدایت :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کتاب سراسر ہدایت ہے۔ یعنی صرف یہ کتاب ہدایت دینے والی ہے جس طرح کی عام اردو تراجم میں مذکور ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر ” ھادی “ نہیں ” ہدی “ فرمایا گیا ہے کہ جو کہ مصدر ہے۔ جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہ کتاب سراسر ہدایت یا نری ہدایت ہے۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ والحمد للہ۔ سو یہ کتاب ہدایت ایک ایسا عظیم الشان اور بےمثال منبع ومصدر ہے ہدایت ونور کا کہ اس کی طرف جو بھی اور جب بھی صدق دل سے رجوع کرے گا یہ اس کو ہدایت کی دولت سے نوازے گی، اور یہ ایسا مصدر فیض اور سرچشمہ ہدایت ہے کہ انسان کو اس کی ایسی پاکیزہ اور عظیم الشان تعلیمات اور ہدایت سے نوازتی ہے کہ اس کی نظیر و مثال تو کیا اس کا عشر عشیر تک بھی دوسرے کسی بھی دین و مذہب اور نظام و قانون میں پایا جانا ممکن نہیں۔ سوکتنے محروم و بدبخت اور کس قدر ظالم وبے انصاف ہیں۔ وہ لوگ جو اس کتاب حکیم کا انکار کرتے ہیں اور اس سے منہ موڑ کر وہ بطن وفرج کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ اور وہ انسانیت کے منصہ شرف سے گر کر حیوان محض بلکہ شرالبریہ بن گئے ہیں اور ہاویۃ جہنم کے مستحق بن کر رہ گئے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے آمین۔ 191۔ قرآن حکیم عین رحمت اور عظیم الشان خوشخبری :۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ کتاب عیطن رحمت اور عظیم الشان خوشخبری ہے۔ اور ایسی رحمت و خوشخبری کہ جس کی نہ اور کوئی نظیر ہوسکتی ہے نہ مثال۔ فالحمد للہ الذی شرفنا بھذا الکتاب العظیم وبالایمان بہ وبالاشتغال بہ۔ فزدنا اللہم ایمانام بہ یقینا وخدمہ واشتغالا وحسن الختام۔ سو جو بھی صدق دل سے اس کی تعلیمات مقدسہ کو اپنائے گا یہ کتاب حکیم اس کو اپنی رحمتوں سے نوازے گی اور اس کے لئے عظیم الشان خوشخبری بنے گی کہ اس کو دنیا میں پاکیزہ زندگی ” حیات طیبہ “ کی سعادت نصیب ہوگی۔ اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم سے سرفرازی۔ وباللہ التوفیق۔ سو جو لوگ اس کتاب حکیم پر صدق دل سے ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکلیہ اپنے رب کے حوالے کردیتے ہیں یہ کتاب ان کیلئے عین ہدایت اور سراسر رحمت و بشارت بن جاتی ہے۔ اور ان کو ہاتھ پکڑ کر صراط مستقیم کی اس بےمثال شاہراہ پر ڈال دیتی ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ ور کرنے والی واحد شاہراہ ہے۔ 192۔ قرآن حکیم سے استفادے کی اولین شرط انقیاد و تسلیم :۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قرآن حکیم کی رحمتوں سے سرفرازی کیلئے اولین شرط ہے انقیاد وتسلیم۔ سو یہ ایک اہم اور بنیادی خصوصیت ہے۔ کہ قرآن حکیم کی رحمتوں سے سرفرازی کیلئے اولین شرط ہے انقیاد وتسلیم۔ سو یہ ایک اہم اور بنیادی خصوصیت ہے۔ کہ قرآن حکیم کی اس ہدایت کامل اور رحمت بیکراں سے مستفید ہونے کیلئے اولین شرط اس پر ایمان لانا اور اس کے حضور دل وجان سے جھک جانا ہے۔ سو اس کے ارشادات پر صدق دل سے ایمان لانا اور انکے احکام و فرامین کو اپنانا اور وظیفہ حیات بنانا ہی واحد راستہ ہے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا۔ اس کے برعکس جس نے اس سے موڑ اور اعراض برتا، یہ کتاب حکیم اس کے خلاف حجت بنے گی، جیسا کہ حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ارشاد فرمایا ” القران حجۃ لک او علیک “۔” قرآن ہوگا تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف “۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور یہ ایک طبعی امر ہے کہ دواخانے میں دوا تو ہر طرح کی اور ہر کسی کیلئے موجود ہوتی ہے لیکن فائدہ اسی کو ہوتا ہے جو دوا لیتا ہے۔ اور ڈاکٹر وحکیم کی ہدایت کے مطابق اس کو استعمال کرتا ہے۔ سو اکڑی ہوئی گردنوں، بگڑے ہوئے دماغوں اور پھرے ہوئے دلوں کیلئے محرومی و ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت میں رکھے آمین۔
Top