Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی اور نامعقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
آیت نمبر 90 تا 100 ترجمہ : بلا شبہ اللہ تعالیٰ عدل (یعنی) توحید یا انصاف اور احسان (یعنی) اداء فرائض کا یا (اس طرح) عبادت کرنے کا گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، اور قرابتداروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اہتمام کرنے کی وجہ سے خاص طور پر قرابتداروں کا ذکر کیا ہے حالانکہ احسان کے عموم میں وہ بھی داخل ہیں حکم دیتا ہے اور (اللہ) فحش یعنی زنا اور شرعًا منکرات سے مثلاً کفر و معاصی، اور لوگوں پر ظلم کرنے سے منع کرتا ہے (ممانعت ظلم کو اہتمام کی وجہ سے خاص طور پر ذکر کیا ہے ورنہ تو نھی عن الفحش میں ظلم بھی داخل ہے) امرو نہی کی تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو، (تذکرون) میں تاء کو دراصل ذال میں ادغام کردیا ہے اور مستدرک میں ابن مسعود سے مروی ہے کہ قرآن کی آیات میں سے یہ آیت (بیان) خیر و شر کے لئے جامع ترین آیت ہے اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو خواہ بیعت کے طور پر ہو خواہ ایمان وغیرہ کے طور پر ہو، جبکہ تم آپس میں معاہدہ کرو اور قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد مت توڑو حالانکہ اللہ کو تم نے اپنے اوپر گواہ بنالیا ہے عہد پوار کرنے پر، اسلئے کہ تم نے اس کی قسم کھائی ہے، اور (وقد جعلتم) جملہ حال ہے، اللہ کو خوب معلوم ہے جو کچھ تم کرتے ہو یہ ان کے لئے دھمکی ہے، اور تم اس عورت کے مانند نہ ہوجاؤ کہ جس نے سوت کو مضبوط اور دہرا کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے ادھڑ ڈالا (انکاثا) حال ہے (اور) نِکث کی جمع ہے ادھیڑ کر جس کی مضبوطی کو ختم کردیا گیا ہو، (یہ واقعہ) مکہ کی ایک پاگل عورت کا ہے جو دن بھر سوت کا تا کرتی تھی، اور پھر (شام) کو توڑ کر (خراب کردیتی تھی) تم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کا ذریعہ بناتے ہو، (تتحذون) تکونوا کی ضمیر سے حال ہے دخلاً اجنبی چیز کو کہتے ہیں جو اس جنس سے نہ ہو یعنی تم اپنی قسموں کو فساد اور دھوکانہ بناؤ، بایں صورت کہ ان کو توڑ دو ، تاکہ تم میں کی ایک جماعت دوسری جماعت سے بڑھ جائے اور وہ لوگ اپنے حلیفوں سے معاہدہ کرتے تھے اور جب ان سے بڑی جماعت یا زیادہ باعزت پاتے تو پہلے حلیفوں کا حلف ختم کردیتے اور دوسروں کے حلیف ہوجاتے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ آزمارہا ہے یعنی وفاء عہد کا حکم دے کر تم کو جانچ رہا ہے تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے جس عہد وغیرہ کے معاملہ میں تم دنیا میں اختلاف کررہے تھے کھول کھول کر بیان کردے گا، یہ کہ عہد شکن کو سزا دے گا اور وفا کرنے والے کو جزا دے گا، اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت ( یعنی) ملت والا بنا دیتا، لیکن (اللہ) جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے جو کچھ تم کررہے ہو اس کے بارے میں یقیناً قیامت کے دن لاجواب کرنے کے لئے تم سے سوال کیا جائیگا اور تم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کاری کا ذریعہ نہ بناؤ، تاکید کے لئے مکرر لایا گیا ہے پھر تمہارے قدم شاہراہ اسلام سے پر جم جانے کے بعد جائیں گے، اور تم بدترین عذاب کا مزا چکھو گے تمہارے اللہ کے راستہ سے روکنے کی وجہ سے یعنی تمہارے وفاء عہد سے باز رہنے کی وجہ سے یا وفاء عہد سے دوسرے کو باز رکھنے کی وجہ سے اس لئے کہ وہ تمہارے نقش قدم پر چلا، اور تم کو آخرت میں بڑا عذاب ہوگا اور تم اللہ کے عہد کو دنیا کی قلیل پونجی کے لئے نہ بیچدیا کرو بایں طور کہ اس کے لئے نقص عہد کرو بلاشبہ اللہ کے پاس اس کا اجر تمہارے لئے بہتر ہے اس سے کہ جو کچھ دنیا میں ہے اگر تمہیں اس بات کا علم ہو تو تم نقص عہد نہ کرو اور دنیا کی جو متاع تمہارے پاس ہے وہ فنا ہونے والی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ دائمی ہے اور ہم (لیجرینّ ) یاء اور نون کے ساتھ ہے، یقیناً وفاء عہد پر صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے، احسن بمعنی حسن ہے اور جو شخص نیک عمل کرے مرد عورت اور وہ باایمان بھی ہو تو ہم اس کو ضرور اچھی زندگی عطا کریں گے کہا گیا ہے کہ وہ جنت کی زندگی ہے اور کہا گیا ہے کہ دنیا ہی میں قناعت اور رزق حلال ہے اور ان کے نیک اعمال کا بدلہ ہم ضرور بالضرور دیں گے اور جب آپ قرآن پڑھو (یعنی) پڑھنے کا ارادہ کرو تو شیطان مردود سے پناہ طلب کرو (یعنی) اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم کہہ لیا کرو، یقینی بات ہے کہ ایمان والوں پر اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرنے والوں پر اس کا مطلقًا زور نہیں چلتا ہاں اس کا زور ان پر ضرور چلتا ہے جو شیطان کو اس کی اطاعت میں اپنا سرپرست بناتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : القربیٰ ، اسم مصدر ہے رشتہ داری۔ قولہ : تخصیص بعد التعمیم، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، احسان میں داخل ہے مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ خاص طور پر ذکر فرمایا۔ قولہ : کما بَدَأبالفحشاء لذلک یعنی اہتمام ہی کی وجہ سے سب سے پہلے فحشاء یعنی زنا کو بیان فرمایا اسلئے کہ زنا کی وجہ سے نسب محفوظ نہیں رہتا اور اللہ کے غضب کا بھی موجب ہے۔ قولہ : من البیعۃ، ای بَیْعۃ الرسول علی الاسلام، اس سے بیعت رضوان مراد نہیں ہے اسلئے کہ یہ سورت مکی ہے اور بیعت رضوان ہجرت کے بعد ہوئی۔ قولہ : کفیلاً ، ای شاھدًا . قولہ : والجملۃ حالٌ یعنی (وقد جعلتم) جملہ ہو کر تنقضوا کی ضمیر سے حال ہے نہ کہ معطوف، ورنہ تو عطف خبر علی الانشاء لازم آئے گا قولہ : تھدیدلھم یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ (اِنَّ اللہ یعلم ماتفعلون) معطوف علیہ لا تنقضوا، اور معطوف لا تکونوا کے درمیان فضل بالا اجنبی ہے، جواب کا حاصل یہ ہے (اِنَّ اللہ یعلم ماتفعلون) جملہ تہدید یہ ہے کہ اجنبی نہیں ہے۔ قولہ : ماغزلَتْہ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ غزل مصدر ہے اس کی جانب نقص (توڑنے) کی نسبت درست نہیں ہے مفسر علام نے غزل کی تفسیر ماغزلَتْہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ مصدر بمعنی مفعول ہے یعنی جس کو اس نے کا تا اس کو توڑ دیا۔ قولہ : بعد قوۃ بعض حضرات نے بعدقوۃ کے معنی، مضبوط کرنے کے بعد کے لئے ہیں مفسر علام نے بھی یہی معنی مراد لئے ہیں اور بعض دیگر مفسرین نے بعد قوۃٍ ، کے معنی محنت سے کاتنے کے بعد، کے لئے ہیں۔ قولہ : غزلَھَا، یہ (ض) سے مصدر ہے جو کہ، ھا ضمیر کی طرف مضاف ہے، اس کے معنی سوت کا تنا اس جگہ بمعنی اسم مفعول ہے یعنی کا تا ہوا سوت، مکہ میں ایک بیوقوف عورت تھی جو صبح سے شام تک اپنی باندیوں کے ساتھ سوت کا تتی تھی اور شام کو کا تا ہوا تمام سوت توڑ کو ضائع کردیتی تھی اس عورت کا نام رَیْطَۃُ بنت سعد بن تیم القرشیہ ہے مطلب یہ ہے کہ تم نے اللہ سے جو معاہدہ کر رکھا ہے اس کو نہ توڑو ورنہ تمہاری کری کرائی محنت بیکار ہوجائے گی۔ قولہ : برم استوار کرنا سوت کو دہرا کاتنا (صراح) ۔ قولہ : حال من ضمیر تکونوا، یعنی تتخذون، تکونوا کی ضمیر سے حال ہے نہ کہ مفعول ثانی اسلئے کہ تکون متعدی بدو مفعول نہیں ہوتا الایہ کہ تصییر وغیرہ کے معنی کو متضمن ہوجائے۔ قولہ : انکاثا یہ نکث کی جمع ہے، پرانی روئی وغیرہ کو درہراکاتنے کے لئے توڑ ڈالنا۔ قولہ : وھو ماینکث اس میں اشارہ ہے کہ نکث بمعنی منکوث (منقوض) ہے۔ قولہ : دَخَلاً یہ لا تکونوا کی ضمیر سے حال ہے ای لا تکونوا مشابھین بامرأۃ شانھا ھذا . قولہ : دَخَلاً ، بہانہ، فریب، دغا، فساد، دراندزی، اجنبی قولہ : اَرْبیٰ ، چڑھا ہوا، بڑھا ہوا، (ن) یہ رِباً سے اسم تفصیل کا ضیغہ ہے۔ قولہ : أتفونَ ، ھمزہ، استفہام کا ہے، تفون یہ وَفیٰ سے مضارع جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے، تم وفا کرتے ہو۔ قولہ : ای اقرام، قدم کی تفسیر اقدام سے کرکے اشارہ کردیا کہ جب ایک قدم کا پھسلنا باعث ننگ و عار اور موجب عقاب ہے تو اگر دونوں قدم پھسل جائیں تو کیا حال ہوگا ؟ قولہ : محجۃ درمیانی راستہ، شاہراہ۔ قولہ : یصدکم عن الوفاء اس میں اشارہ ہے کہ صدٌّ لازم ہے۔ قولہ : بصد کم غیر کم اس میں اشارہ ہے کہ صدٌّ منع کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ قولہ : فلا تنقضوا یہ انْ شرطیہ کا جواب ہے۔ تفسیر وتشریح عدل کے معنی شریعت کی نظر میں : ان۔۔۔ القربیٰ (الآیۃ) یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے، اسلئے سلف صالحین کے عہد مبارک سے آج تک دستور چلا آرہا ہے کہ جمعہ اور عیدین کے خطبوں کے آخر میں یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ قرآن مجید کی جامع ترین آیت سورة نحل میں یہ ہے انَّ اللہ یامر بالعدل (الاٰیۃ).(ابن کثیر) اس آیت میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرہ کی درستی کا انحصار ہے، پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو دوسرے یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کا حق بےلاگ پر دیا جائے، ” عدل “ کے مشہور معنی انصاف کے ہیں یعنی اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عنادیا محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں، ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملہ میں افراط یا تفریط کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ ” احسان “ کسے کہتے ہیں : آیت میں مذکور دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاو، فیا ضانہ معاملہ، ہمدردانہ روّیہ، رواداری، خوش خلقی، درگذر باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس لحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا، یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے، جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے، عدل اگر معاشرہ کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے، عدل معاشرہ کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوشگواری اور حلاوت پیدا کرتا ہے، کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کو دیکھا رہے کہ اس کا کیا حق ہے ؟ اور اسے وصول کرکے چھوڑے اور دوسرے کا کتنا حق ہے اسے بس اتنا ہی دیدے، ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرہ میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گذاری اور عالی ظرفی اور ایثار و اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرتے ہیں۔ احسان کے ایک معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت کے ہیں جس کو حدیث میں أن تعبداللہ کأنک تراہُ (عبادت تم اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تیسری چیز جس کا آیت میں ذکر ہے وہ صلہ رحمی ہے، جو رشتہ داروں کے معاملہ میں احسان کی ایک خاص قسم ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان صرف اپنے رشتہ داروں ہی کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے پر تاؤ کا معاملہ کرے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر صاحب استطاعت اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے، شریعت الہٰی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں، خدا کی نظر میں ایک معاشرہ کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ خاندان کے اندر ایک شخص عیش کررہا ہو اور اسی کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بندروٹی کپڑے تک محتاج ہوں۔ ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے اس کے بعد دوسروں کے حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے اسی کو احادیث میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے، آپ نے فرمایا کہ انسان کے حسن سلوک کے اولین حقدار اس کے والدین، اس کی بیوی بچے اور اس کے بھائی بہن ہیں پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں علی ہذا القیاس، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس معاشرہ کا ہر واحدہ (Unit) اس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی اور بلندی پیدا ہوجائے گی۔ تین ایجابی حکموں کے مقابلہ میں تین سلبی احکام : تینوں منکرات میں فحشاء کو اس کے اہم ہونے کی وجہ سے پہلے بیان کیا ہے یہاں ” فحشاء “ سے بےحیائی کے کام مراد ہیں آجکل بےحیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب، ترقی، آرٹ، فن لطیف قرار پا گیا ہے تفریح کے نام پر اس کا جواز تسلیم کرلیا گیا ہے، مگر خوشنما لیبل لگا دینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل سکتی، فحشاء کا اطلاق بیہودہ کام اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو فحش ہے، مثلاً زنا اور اس کے مقدمات، عریانیت، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح، چوری، رقص و سرود، فیشن پرستی، اور مردوزن کا بےباکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت، شراب نوشی، پیشے کے طور پر بھیک مانگنا، گالی گلوچ کرنا، علی الاعلان برے کام کرنا، اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحشاء میں شامل ہے مثلاً جھوٹا پروپیگنڈہ، الزام تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے، اور فلمی عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا تھرکنا ومٹکنا، اور دیگر اسی قسم کی خرافات کو شریعت نے بےحیائی ہی قرار دیا ہے خواہ ان کا کتنا ہی اچھا نام کیوں نہ رکھ لیا جائے، مغرب سے درآمد شدہ ان خباثتوں کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری چیز ” منکر “ میں تمام گناہ، ظاہری اور باطنی، عملی اور اخلاقی سب داخل ہیں۔ تیسری چیز ” بغی “ ہے، اس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا خواہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے، اس میں ظلم وزیادی، قطع رحمی سب داخل ہیں، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (آخرت کے علاوہ) دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔ واوفوا۔۔۔ ھدتم (الآیۃ) یہاں تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کرکے ان کے پابندی کا حکم دیا گیا ہے (1) ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے (2) دوسرا وہ عہد جو ایک انسان نے دوسرے انسان سے یا گروہ سے کیا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو، یا کسی نہ کسی طرح اللہ کا نام لے کر قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو، یہ عہد دوسرے درجہ کی اہمیت رکھتا ہے، (3) تیسرا وہ عہد و پیمان ہے کہ اللہ کا نام درمیان میں لائے بغیر کیا گیا ہو یہ تیسرے درجہ کا عہد ہے اور اس کی اہمیت پہلے دو کے بعد ہے، لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے، خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں۔ عہد شکنی حرام ہے : لفظ ” عہد “ ان تمام معاملات و معاہدات کو شامل ہے جس کا زبان سے یا تحریر سے التزام کیا جائے خواہ اس پر قسم کھائے یا نہ کھائے خواہ وہ کسی کام کے کرنے سے متعلق ہو یا نہ کرنے سے۔ یہ آیات درحقیقت آیت سابقہ کی تشریح و تکمیل ہیں آیت سابقہ میں عدل کا حکم تھا لفظ کے مفہوم میں ایفاء عہد بھی داخل ہے۔ (قرطبی) کسی سے معاہدہ کرنے کے بعد عہد شکنی کرنا بڑا گناہ ہے مگر توڑنے پر کوئی کفارہ نہیں بلکہ آخرت کا مواخذہ ہے، حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے روز عہدشکنی کرنے والے کی پشت پر ایک جھنڈا نصب کردیا جائے گا جو میدان حشر میں اس کی رسوائی کا سبب بنے گا۔ لا۔۔۔ غزلھا (الآیۃ) اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اس بدترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھکر موجب فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کار ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد لیتے ہیں، قوموں اور گروہوں کی سیاسی، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے، ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا در پردہ اس کی خلاف ورزی کرکے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، یہ حرکتیں ایسے لوگ بھی کر گذرتے ہیں جو ذاتی زندگی میں بڑے استعمال ہوتے ہیں اور اس قسم کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی (سیاست) کا کمال سمجھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرمایا ہے ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہونگے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے بچ نہ سکیں گے کسی کو دھوکا دینے کے لئے قسم کھانے میں سلب ایمان کا خطرہ ہے : لا۔۔۔ دخلاً ، اس آیت میں ایک اور عظیم گناہ سے بچانے کی ہدایت ہے وہ یہ کہ قسم کھاتے وقت ہی سے اس قسم کے خلاف کرنے کا ارادہ ہو اور صرف مخاطب کو فریب دینے کے لئے قسم کھائی جائے، یہ قسم عام قسموں سے زیادہ خطرناک گناہ ہے جس کے نتیجہ میں یہ خطرہ ہے کہ ایمان کی دولت ہی سے محروم ہوجائے فتزل قدم بعد ثبو تھا، کا یہی مطلب ہے۔ (معارف) رشوت لینا سخت حرام اور اللہ سے عہد شکنی ہے : ولا۔۔۔ قلیلا، یعنی اللہ کے عہد کو قلیل قیمت کے لئے نہ توڑو یہاں قلیل قیمت سے مراد دنیا اور دینوی منافع ہیں یہ مقدار میں خواہ کتنے ہی بڑے ہوں آخرت کے منافع کے مقابلہ میں پوری دنیا اور اس کی تمام دولتیں بھی قلیل ہیں، جس نے آخرت کے بدلے میں دنیا لے لی اس نے نہایت خسارے کا سودا کیا، اسلئے کہ دائمی نعمت و دولت کو بہت جلد فنا ہونے والی گھٹیا چیز کے عوض بیچ ڈالا، اور یہ کام کوئی سمجھدار شخص نہیں کرسکتا۔ ابن عطیہ نے لکھا ہے کہ جس کام کا پورا کرنے پر کسی سے معاوضہ لینا اور بغیر لئے نہ کرنا اللہ کا عہد توڑنا ہے، اسی طرح جس کام کا نہ کرنا کسی کے ذمہ واجب ہو اس پر کسی سے معاوضہ لے کر اس کو کرنا یہ بھی اللہ کا عہد توڑنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشوت کی مروجہ قسمیں سب حرام ہیں، جیسے کوئی سرکاری ملازم کسی کام کی تو تنخواہ حکومت سے پاتا ہے تو اس نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ یہ تنخواہ لے کر مفوضہ خدمت پوری کروں گا، اب اگر وہ اس کام کے کرنے پر معاوضہ طلب کرے اور بغیر معاوضہ اس کام کو نہ کرے یا معمول سے تاخیر کرے تو یہ اللہ کے عہد کو توڑرہا ہے، اسی طرح جس کام کا اس محکمہ کی طرف سے اختیار نہیں اس کو رشوت لے کر کر ڈالنا بھی اللہ سے عہد شکنی ہے۔ رشوت کی جامع تعریف : اخذ الاموال علی فعل مایجب علی الاٰ خذفعلہ اوفعل مایجب علیہ ترکہ . یعنی جس کام کا کرنا اس کے ذمہ واجب ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا اور جس کام کا نہ کرنا واجب ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا رشوت ہے۔ (تفسیر بحر محیط ص 533 ج 5) فلنحیینّہ حیٰوۃ طیبہ، حیات طیبہ سے مراد دنیا کی زندگی ہے اسلئے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے میں ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک مومن باکردار کو صالحانہ اور متقیانہ زندگی گذارنے اور اللہ کی عبادت و اطاعت اور زہدو قناعت میں جو لذت و حلاوت محسوس ہوتی ہے وہ ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود میسر نہیں آتی، بلکہ وہ ایک گونہ قلق و اضطراب کا شکار رہتا ہے، (ومن اَعْرَضَ عن ذکری فاِن لہ معیشۃ ضنکا) جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گذا ان تنگی والا ہے۔ فاذا قرأت القرآن فاستعذباللہ من الشیطان الرجیم . ربط آیات : سابقہ آیت میں اول ایفاء عہد کی تاکید تھی اب مطلقًا اعمال صالحہ کی تاکید و ترغیب کا بیان ہے انسان کی احکام میں غفلت اغواء شیطانی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے آیت میں شیطان رجیم سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے، جس کی ضرورت ہی نیک عمل ہے یہاں اگرچہ خاص طور پر قراءت قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اس تحصیص کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تلاوت ایک ایسا عمل ہے جس سے خود شیطان بھاگتا ہے، اور بعض خاص آیات اور سورتیں بالخاصہ شیطان کے اثرات زائل کرنے کے لئے مجرب ہیں جن کا مؤثرہونا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے۔ (بیان القرآن) مسئلہ : نماز میں تعوذ امام ابوحنیفہ کے نزدیک صرف پہلی رکعت کے شروع میں پڑھا جائے، امام شافعی (رح) تعالیٰ ہر رکعت کے شروع میں پڑھنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ مسئلہ : تلاوت قرآن نماز میں ہو یا خارج نماز دونوں صورتوں میں تلاوت سے پہلے اعوذباللہ پڑھنا سنت ہے مگر شروع میں ایک دفعہ پڑھنا کافی ہے، البتہ تلاوت کے درمیان اگر تلاوت موقوف کرکے کسی اور کام میں لگ گیا اور پھر تلاوت شروع کی تو اس وقت اعوذ باللہ دوبارہ پڑھنی چاہیے۔
Top