Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
45 تا 50۔ مسند اما احمد اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت 3 ؎ ہے (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 496 ج 3) جس کا حاصل یہ ہے کہ جو صفتیں نبی آخر الزمان ﷺ کی اس پہلی آیت میں ہیں وہی صفتیں آپ کی تورات میں ہیں مسند امام احمد صحیح بخاری ترمذی وغیرہ کی روایتوں سے سورة بقرہ میں گزر چکا 4 ؎ ہے (4 ؎ صفحہ 128 جلد اول تفسیر ہذا۔ ) کہ سوائے امت محمد ﷺ یہ کے اور نبیوں کی امتیں اپنے انبیاء کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جھٹلادیں گے اور یہ کہویں گے کہ ہم کو کسی نبی نے اللہ کا حکم نہیں پہنچایا آخر قرآن کے حوالہ سے نبی آخرالزمان ﷺ کی امت کی اور محمد ﷺ کی گواہی پر یہ معاملہ طے ہوگا اور سب اللہ کے روسل سچے ٹھہریں گے اسی کو فرمایا کہ اے نبی تم کو اللہ نے دنیا میں گواہ بنا کر بھیجا ہے مبشر اونذیرا کے معنے فرما نبرداروں کو جنت کی خوشخبری سنانا اور نافرمانوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرانا اور جو ڈر کر راہ راست پر مجاویں ان کو اللہ کے فضل اور مہربانی کا امید دار کرنا ‘ پھر فرمایا جو کافر اور منافق تمہارے رسالت کے کام میں فتور ڈالیں تو اے رسول اللہ کے ان کا کہنا نہ سنو اور ان کی جہالت کی باتوں پر صبر کر کے اپنے کام کے پورا کرنے میں اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ تمہارا کام بنانے والا ہے داعیا الی اللہ باذنہ کا یہ مطلب ہے کہ تم اللہ کے حکم سے لوگوں کو نیک راستہ سکھاتے ہو ‘ سراجا منیرا کا یہ مطلب ہے کہ جو تمہاری نصیحت پر عمل کرے گا اس کا دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا ‘ پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کرو ایمان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کرو ایمان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کر وامیان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے صحبت کرو تو ان پر تمہارا کچھ حق عدب کے پورا کرنے کا نہیں ہے ان کو فائدہ پہنچا کر اچھی طرح رخصت کرو مطلب یہ ہے کہ صحبت سے پیشتر جب تم طلاق دو تو پھر عورتوں کو عدت میں بٹھانے کا کچھ حق نہیں کہ تم ان سے عدت کے دنوں کو گنتی پوری کر اؤیہ مسئلہ اتفاقی ہے کسی کا اس میں خلاف نہیں کہ صحبت سے پیشتر طلاق دی جاوے تو عورت کو اختیار ہے کہ فی الفور جس سے چاہے نکاح کر لیوے ایسی عورت کو کچھ فائدہ اپنی حیثیت کے موافق دے کر اچھی طرح رخصت کر دو صحیح بخاری 1 ؎ میں ہے (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 498 ج 3‘) کہ پیغمبر صلعم نے امیمہ نبت شراحیل سے نکاح کیا جب آپ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو اس کو یہ بات ناپسند ہوئی اس پر حضرت ﷺ نے ابو اسید سے فرمایا کہ اس کو کچھ کپڑے دے دوعلی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر عورت کا مہر دے چکے ہو وہ اللہ نے تم پر حلال کردیں ہیں حضرت ﷺ کی بی بیوں کا مہر پانچ سودر ہم تھا مگر اس حکم سے تین بی بیاں مستثنیٰ ہیں ایک تو ام حبیبہ ؓ کہ ان کا مہر نجاشی بادشاہ حبشہ نے چار سو دینا دیا دوسری صفیہ ؓ کہ ان کو پیغمبر ﷺ نے خیبر کے قیدیوں میں سے پسند کر کے ان کا مہر انہیں آزاد کرنے کو ٹھہرایا ‘ تیسری جو یر یہ بنت حارث ؓ کہ حضرت نے ان کو کچھ مال دے کر ان سے عقد کرلیا 2 ؎ پھر فرمایا اے نبی اللہ نے تم کو وہ عورتیں بھی جائز کردیں ہیں (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 399 ج 3۔ ) جو تم نے غنیمت کے مال سے لی ہیں اور چچا اور پھوپھیاں اور خالہ اور ماموں کی بیٹیاں جنہوں نے ہجرت کی وہ بھی حلال کردیں نصاریٰ حب تک عورت مرد کے درمیان سات پشت یا زیادہ کا فاصلہ نہ ہوتا تو نکاح درست نہ جانتے تھے اور یہود بھانیل بھتیجی کو بھی حلال سمجھتے تھے اس شریعت محمد ﷺ یہ میں یہ بات قائم نہ رہی پھر فرمایا اے رسول ﷺ اگر کوئی ایماندار عورت اپنے آپ کو تمہیں بخشش دیوے اور تم چاہتے (رح) ہو اس سے نکاح کرنا تو تم کو اس سے بغیر مہر کے نکاح کرنا درست ہے یہ بات خاص تمہارے لیے ہے اور ایمان والوں کے لیے نہیں ہے امام احمد امام بخاری مسلم ترمذی نسائی اور ابوداؤ (نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک عورت نے عرض کیا کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی پھر دیر تک کھڑی رہی اس کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا یارسول اللہ اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیرے پاس مہر کے واسطے کوئی چیز ہے اس نے عرض کیا میرے پاس تو یہی تہ بند ہے آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو نے اس کو اپنی چادر دے دی تو تو بےچادر بیٹھا رہے گا گا کوئی چیز تلاش کر کے لیے آ اس نے عرض کیا مجھے کچھ بھی نہیں ملتا آپ نے فرمایا کچھ ڈھونڈ کرلے آ اور کچھ نہیں تو لو ہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی پھر اس نے ڈھونڈا مگر اسے کچھ بھی نہیں ملا تو حضرت ﷺ نے اور سے دریافت کیا کہ تجھے کچھ قرآن بھی یاد ہے اس نے کئی سورتیں بتائی یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس قدر تجھے قرآن یاد ہے اس کے بدلے میں نے اس عورت کا نکاح تجھ سے کردیا یہ حدیث خالصۃ لک من دون المومنین کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو اللہ کے رسول ﷺ کے حوالہ میں سونپ کر بغیر مہر کے نکاح پر راضی ہو اور اللہ کے رسول اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرنا چاہیں تو اس نکاح میں مہر کی ضرورت ہے ‘ قرآن کی آیتوں کو مہر ٹھہرا کر اللہ کے رسول ﷺ نے جو یہ نکاح پڑھایا اس میں ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے ‘ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تمہارے نکاح کے حکموں کے علاوہ امت کے مسلمانوں کے نکاحوں کے احکام جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں وہ بھی اللہ کے علم کے موافق ہیں کہ کسی مسلمان کو چار عورتیں سے زیادہ نکاح میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور ان کے ہر ایک نکاح میں عورت کے وارث کی اجازت اور گواہوں کی گواہی ضرور ہے اور لونڈیوں کو صحبت میں رکھنے کی ان کو اجازت ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ نکاح کے احکام اس واسطے تفصیل وار نازل فرمائے ہیں کہ اے نبی تم کو اور تمہاری امت کے مسلمان لوگوں کو اس باب میں کچھ تنگی نہ رہے اور ان احکام کے نازل ہونے سے پہلے یہ لوگ جو بےاحتیاطی کرچکے اس کو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔
Top