Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے نبی ہم نے تجھ کو بھیجا ہے بتانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا
رسول اللہ ﷺ کی خاص صفات
(آیت) یایہا النبی انا ارسلنک شاہداً ومبشراً اونذیراً ، وداعیاً الیٰ اللہ باذنہ وسراجاً منیراً ، یہ پھر عود ہے رسول اللہ ﷺ کی خاص صفات کمال اور مناقب کی طرف، اس میں رسول اللہ ﷺ کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا۔ شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ، سراج، منیر، شاہد سے مراد یہ ہے کہ آپ قیامت کے روز امت کے لئے شہادت دیں گے جیسا کہ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوسعید خدری سے ایک طویل حدیث روایت ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں کہ قیامت کے روز نوح ؑ پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ نے ہمارا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا وہ عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا، پھر ان کی امت پیش ہوگی، وہ اس سے انکار کرے گی کہ ان کو اللہ کا کوئی پیغام نہیں پہنچا ہے۔ اس وقت حضرت نوح ؑ سے پوچھا جائے گا کہ آپ جو پیغام حق پہنچانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر کوئی آپ کا شاہد بھی ہے ؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ گواہی میں امت محمدیہ کو پیش کریں گے، یہ امت ان کے حق میں گواہی دے گی، تو امت نوح ؑ ان پر یہ جرح کرے گی کہ یہ ہمارے معاملہ میں کیسے گواہی دے سکتے ہیں، یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، ہمارے زمانے سے بہت طویل زمانے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس جرح کا جواب امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا، وہ یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہیں تھے، مگر ہم نے اس کی خبر اپنے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی، جس پر ہمارا ایمان و اعتقاد ہے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ سے آپ کی امت کے اس قول کی تصدیق کے لئے شہادت لی جائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شہادت کے ذریعہ اپنی امت کی تصدیق و توثیق فرمائیں گے کہ بیشک میں نے ان کو یہ اطلاع دی تھی۔
اور امت پر شاہد ہونے کا ایک مفہوم عام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے سب افراد کے اچھے برے اعمال کی شہادت دیں گے۔ اور یہ شہادت اس بنا پر ہوگی کہ امت کے اعمال رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہر روز صبح و شام اور بعض روایات میں ہفتہ میں ایک روز پیش ہوتے ہیں، اور آپ امت کے ایک ایک فرد کو اس کے اعمال کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ اس لئے قیامت کے روز آپ امت کے شاہد بنائے جائیں گے۔ (رواہ ابن المبارک عن سعید بن المسیب، مظہری)
اور مبشر کے معنی بشارت دینے والا، مراد یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے نیک با شرع لوگوں کو جنت کی خوش خبری سنانے والے ہیں۔ اور نذیر کے معنی ڈرانے والا، مراد یہ ہے کہ آپ امت کے لوگوں کو در صورت خلاف ورزی و نافرمانی کے عذاب سے ڈرانے والے بھی ہیں۔
Top