Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب شیطان تمہارے دشمن نے تم سے لباس بہشتی چھنوادیا تو پھر ہم نے تمہارے لئے دنیا میں لباس اتارا کہ مینہ کے ذریعہ سے زمین میں روئی پیدا کی جس سے طرح طرح کے کپڑے بنانے کی تدبیر تم کو سکھلا دی سو تم اب پرہیزگاری کا لباس پہنو مرد ریشمی اور ٹخنوں سے نیچا کپڑا اور عورت بہت باریک کپڑا کہ جس میں بدن دکھائی دے نہ پہنے یہ تمہارے حق میں بہتر ہے خدا کی اس نعمت کا شکر کرو معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی و ابن ماجہ میں حضرت عمر ؓ سے آیا ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نئے کپڑے پہن کہ اللہ کا شکر کیا اور پر نے کپڑے صدقہ دے دے تو وہ شخص زندہ مردہ اللہ کی ہمسائیگی اور حمایت میں رہے گا بعضے مفسروں کے نزدیک تقوٰے کے لباس سے وہ لباس مراد ہے جو قیامت کے دن پرہیز گار لوگ پہنیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تقوے کے لباس کا مطلب نیک عمل ہیں مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا جو عورت ایسا کپڑا پہنے گی جس سے اس کا بدن اچھی طرح نہیں ڈھکے گا تو وہ عورت دوزخی ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ اترانے کے طور پر ٹخنوں سے نیچے پاؤنچے پہنتے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے دور رہیں گے معتبر سند سے ابوداؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں بعداللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے جس میں حضرت ﷺ نے پاجامہ کے علاوہ اور کپڑوں کو بھی عادت سے زیادہ نیچا رکھنے کو منع فرمایا ہے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عمر ؓ اور انس ؓ بن مالک کی روایتیں ہیں جن میں حضرت ﷺ نے مردوں کو ریشمی کپڑا پہننے کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ ریشمی کپڑے کی چار انگل گوٹ وغیرہ مردوں کو جائز ہے اس سے زیادہ جائز نہیں ہے جن مفسروں نے لباس التقوٰے کی تفسیر جائز لباس کو قرار دیا ہے ان کے قول کے موافق یہ حدیثیں لباس التقویٰ کی گویا تفسیر ہیں ریش کے معنے زیب وزنیت کے ہیں مطلب یہ ہے کہ لباس سے آدمی کا بدن بھی ڈھکنا ہے اور بدن کی زیب وزینت بھی ہوجاتی ہے یہ ان مشرکوں کو تنبیہ ہے جو ننگے ہو کر طواف کرتے تھے آخر کو فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ انسان کی ضرورت کی چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ یہ مشرک لوگ ان چیزوں پر دھیان کر کے اللہ کو پہچانیں اور شرک سے باز آویں :۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حوا کا لباس ایسا تھا جس طرح اب ہاتھ پیروں کے انگلیوں کے ناخق ہیں گیہوں کھانے سے تمام بدن کا لباس اتر کر فقط انگلیوں پر اس لباس کی نشانی باقی رہ گئی جس کو ناخن کہتے ہیں مسند امام احمد ابو واود ‘ ابن ماجہ ‘ صحیح ابن حبان مستدرک حاکم اور بیہقی میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص جنگل میں پاخانہ کو بیٹھے تو اس کو چاہئے کہ کچھ آڑ کر لیوے پھر فرمایا یہ آڑ اس واسطے ہے کہ شیطان جب انسان کو ننگا دیکھتا ہے تو انسان کی شرمگاہ کو ایک کھیل ٹھہرا لیتا ہے مطلب یہ ہے کہ ننگے آدمی کو شیطان زیادہ بہکاتا ہے کیونکہ شیطان ذکر الٰہی سے بھاگتا ہے اور پاخانہ کے وقت ننگا آدمی ذکر الٰہی نہیں کرسکتا اس آڑ سے شیطان کا وہ غلبہ اللہ کے حکم سے جاتا رہتا ہے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے آدم ( علیہ السلام) وحوا کو گیہوں کھلا کر کیوں ننگا کردیا اور بنی آدم جب ننگے ہوں تو ان کے پاس کیوں آتا ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی حصین حرانی کو اگرچہ بعضے علماء نے نامعلوم الحال کہا ہے لیکن ابن حبان نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے علاوہ اس کے ایک راوی ابو سعید حرانی ہیں جو علماء کا اختلاف ہے اس اختلاف سے حدیث میں کچھ ضعف نہیں آتا کیونکہ اس حدیث کو حضرت عائشہ ؓ کی اس صحیح روایت سے تقویت ہوجاتی ہے جس کو ابوداود وغیرہ نے پاخانہ کے وقت آڑ کرنے کے باب میں روایت کیا ہے ابوہریرہ ؓ کی اس حدیث میں اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں فرق فقط اتنا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں پاخانہ کے وقت فقط آڑ کرنے کا حکم ہے اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں آڑ کا حکم اور اس کا فائدہ دونوں باتیں ہیں اس صورت میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث حضرت عائشہ ؓ کی حدیث گویا تفسیر ہے علاوہ اس کے جب ابوہریرہ ؓ کی اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں روایت کیا ہے تو ابن حبان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے :۔
Top