Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
(26) بینی ادم قد انزلنا علیکم) یعنی تمہارے لئے پیدا کی (لباساً ) یہاں لباس کے لئے ” انزلنا “ کہا ہے حالانکہ لباس تو زمین کی نباتات سے بنتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نباتات آسمان کے پانی سے ہوتے ہیں۔ اب معنی یہ ہوگا کہ ہم نے اتارے لباس کے اسباب۔ بعض نے کہا زمین کی تمام برکات آسمان کی طرف منسوب ہیں جیسا کہ فرمایا ” وانزلنا الحدی ” ذ حالانکہ لوہا تو زمین سے نکلتا ہے۔ آیت لباساً یواری سواتکم کا شان نزول اس آیت کے نزول کا سبب یعنی شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت میں لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے اور کہتے ہیں جن کپڑوں میں اللہ کی نافرمانی کی اس میں طواف کیسے کریں تو مرد دن کو اور عورتیں رات کو طواف کرتیں قتادہ (رح) فرماتے ہیں عورت طواف کرتی اور اپنی شرم گاہ پر ہاتھ رکھ کر کہتی، آج کے دن یہ ساری یا تھوڑی ظاہر ہوجائے، جو حصہ اس کا ظاہر ہوگا میں اس کو نہ ڈھانپوں گی۔ تو اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم دیا۔ اور فرمایا (قد انزلنا علیکم لباسا یواری سو آئکم) تمہاری شرمگاہ ڈھانپے اس کا واحد ” سواۃ “ ہے شرمگاہ کا نام سوأۃ (برائی) رکھا گیا ہے کیونکہ ہر شخص اس کے ظاہر ہنے کو برا سمجھتا ہے۔ پس تم ننگے طواف نہ کرو۔ (یواری سواتکم) تو تم ننگے طواف نہ کرو (وریشا) ابن عباس ؓ، مجاہد، ضحاک اور سد رحمہما اللہ کے قول میں اس سے مال مراد ہے کہا جاتا ہے ” تریش الرجل “ جب وہ مال دار ہوجائے اور بعض نے کہا جمال یعنی خوبصورتی مراد ہے یعنی وہ کپڑے اتارے جن سے تم خوبصورتی حاصل کرتے ہو اور بعض نے کہا لباس مراد ہے۔ (و لباس التقویٰ ذلک خیر) اہل مدینہ، ابن عامر اور کسائی رحمہما اللہ نے ” و لباس “ سین کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے ۔” لباسا “ پر عطف کرتے ہوئے اور دیگر حضرات نے پیش کے ساتھ پڑھا ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے اور اس کی خبر (خیر) ہے اور ” ذلک “ کو کلام میں صلہ بنایا ہے۔ اس لئے ابن مسعود ؓ اور ابی بن کعب ؓ نے ” و لباس التقوی خیر “ پڑھا ہے اور ” لباس التقوی “ میں اختلاف ہوا ہے۔ لباس التقوی کی تفسیر میں مختلف اقوال (1) قتادہ اور سجدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ سے ایمان مراد ہے۔ (2) حسن (رح) فرماتے ہیں حیاء مراد ہے کیونکہ وہ تقویٰ پر ابھارتی ہے۔ (3) عطاء نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ نیک عمل مراد ہے۔ (4) عثمان بن عفان ؓ سے مروی ہے اچھے اخلاق ، عروہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ تقویٰ کا لباس اللہ کا خوف ہے۔ (5) اور کلبی (رح) فرماتے ہیں معنی یہ ہے کہ تقویٰ کا لباس اس کے صاحب کے لئے بہتر ہے۔ جب وہ خوبصورتی کے لئے پیدا کئے ہوئے لباس کو لے۔ (6) ابن انباری (رح) فرماتے ہیں تقویٰ کا لباس وہی پہلا لباس ہے اس کا اعادہ کیا ہے یہ خبر دینے کے لئے کہ تگیز کا ڈھانپنا طواف میں ننگا ہونے سے بہتر ہے۔ (8) بعض نے کہا اون کا لباس اور وہ کھردرے کپڑے جن کو پرہیز گار لوگ پہنتے ہیں۔ (ذلک من ایت اللہ لعلھم یذکرون)
Top