Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہارے لیے ستر پوش بھی ہے اور زینت بھی۔ مزید برآں تقوی کا لباس ہے جو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں
فصل 4۔ آیات 26 تا 43 کا مضمون : ان آیات میں پہلے ان باتوں کی یاد دہانی کی گئی ہے جن سے، شیطان کی دشمنی کے پیش نظر، اولادِ آدم کو شروع ہی میں آگاہ کردیا گیا تھا اور جن کا اہتمام پیش آنے والے امتحان میں کامیاب ہونے کے ہر ابن آدم کا فرض تھا تاکہ وہ اس افتاد سے محفوظ رہیں جو ان کے دشمن ازلی کے ہاتھوں ان کے بابپ کو پیش آئی۔ اس کے بعد قریش کی طرف، جو اس سورة میں مخاطب ہیں، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ان ہدایات کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیطان نے ان کو بھی ورغلا کر اسی طرح ان کے کپڑے اتروا لیے ہیں جس طرح ان کے ماں باپ، آدم و حوا، کے اتروا لیے تھے لیکن یہ اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بےحیائی انہوں نے شیطان کی پیروی میں نہیں کی بلکہ خدا کے حکم کی تعمیل میں اختیار کی ہے اور دلیل اس کی ان پاس صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے وراثت میں پایا ہے۔ اس کے بعد اس روح اور اصل الاصول کا حوالہ دیا جو تمام خدائی احکام میں لازماً ملحوظ ہے اور جو خدائی احکام اور شیطانی بدعات میں امتیاز کے لیے عقلی و فطری کسوٹی ہ۔ پھر اس کسوٹی پر پرکھ کر بتایا کہ آج جن ابلیسی بدعات کو قریش خدا کا دین بتا رہے ہے ان میں سے کسی چیز کو بھی خدا سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ باتیں انہوں نے شیطان کی رہنمائی میں خود ایجاد کی ہیں اور منسوب ان کو خدا کی طرف کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کو دھمکی دی کہ انہوں نے یہ روش نہ بدلی تو یہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوں گے جن سے ان کی ہم مشرب قومیں دو چار ہوچکی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا حوالہ دیا جو آدم کو اس رزم گاہ امتحان میں اتارتے وقت ان کی ذریت میں انبیاء و رسل کا سلسلہ و رشد و ہدایت جاری کرنے کے لیے فرمایا تھا اور یہ آگاہی دی تھی کہ جو ان انبیاء کی پیروی کریں گے وہ شیطان کے فتنوں سے امان میں رہیں گے اور جو ان کو جھٹلائیں گے وہ اپنی مہلت حیات پوری کر کے دوزخ میں پڑیں گے۔ اس کے بعد مکذبین انبیاء اور متبعین انبیاء دونوں گروہوں کے احوال آخرت کی نہایت موثر تصویر کھینچی ہے۔ پہلے گروہ کے متعلق بتایا ہے کہ جب دوزخ میں سب اگلے پچھلے اکٹھے ہوں گے تو آپس میں جو تیں میں دال بٹے گی اور ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجیں گے۔ اخلاف جن بڑوں کی پیروی پر آج نازاں ہیں۔ کل ان کو گالیاں دیں گے کہ انہوں نے ہماری راہ ماری، یہ نہ گمراہ کرتے تو ہم ہدایت پر ہوتے۔ اکابر اخلاف کو گالیاں دیں گے کہ یہ خود شامت زدہ تھے کہ انہوں نے ہدایت کی راہ اختیار نہ کی، اس میں ہمارا کیا قصور، دوسرے گروہ کی تصویر یوں کھینچی ہے کہ جنت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے خوش خوش بیٹھے ہوں گے، کسی نفرت و ملامت کا کہیں نام و نشان بھی نہ ہوگا، مبارک سلامت کے تحائف کے مبادلے ہو رہے ہوں گے اور ہر گوشے میں خدا کے ترانہ حمد اور انبیاء کے احسانات کے اعتراف سے محفل گونج رہی ہوگی۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ 26۔ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۔ ‘ ریش ’ کا لفظ چڑیوں کے پروں کے لیے بھی آتا ہے اور اس سے زیب وزینت کا لباس بھی مراد ہوتا ہے۔ لباس سے ستر پوشی اور زینت، دونوں چیزیں مقسود ہیں : لباس کا اولین مقصد تو ستر پوشی ہے لیکن زیب وزینت بھی اس کے مقاصد میں داخل ہے۔ قدرت نے وج چیز بھی بنائی ہے اس میں مختلف پہلو ملحوظ رکھے ہیں اور یہ سارے ہی پہلو ہماری فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ستر پوشی کے لیے تو بھگا یا لنگوٹی بھی کافی تھی لیکن قدرت نے اتمامِ نعمت کے طور پر ہمارے لیے ایسے لباس کا انتظام فرمایا جو ستر پوش بھی ہو، سردی اور گرمی سے بھی ہماری حفاظت کرے اور اس سے ہماری شخصیت، ہمارے وقار، ہمارے حسن اور ہماری شان میں بھی اضافہ ہو۔ ان میں سے کوئی مقصد بھی بجائے خود معیوب نہیں ہے البتہ افراط یا تفریط سے جس طرح ہر چیز میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح اس میں بھی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ قرآن نے زینت کو مقاصدِ لباس میں داخل کر کے اس جوگیانہ تصور کی نفی کردی جو لباس کو ایک آلائش اور عریانی یا نیم عریانی کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے باطنی لباس تقوی ہے : ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ، یعنی ظاہری لباس کے ساتھ ساتھ ایک باطنی لباس بھی انسان کو عطا ہوا ہے اور وہ تقوی کا لباس ہے جو اس ظاہری لباس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لیے کہ درحقیقت یہ تقوی کا لباس ہی ہے جو ظاہری لباس کی بھی حقیقی افادیت کو نمایاں کرتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو آدمی اس ظاہری لباس کو اختیار کرتا ہی ہے اپنے اسی باطنی لباس کی تحریک سے۔ اگر یہ نہ ہو تو آدمی کپڑے پہن کر بھی ننگا ہی رہتا ہے اور اس کے لباس سے اس کے وقار میں اضافہ ہونے کے بجائے یا تو اس کی رعونت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس کی بدقوارگی میں۔ یہ لباس تقوی، حیا، خشیتِ الٰہی، اور احساس عبدیت سے بنتا ہے اور جس کے قامت پر اللہ اپنی عنایت کی یہ ردا ڈال دیتا ہے دیکھنے کے قابل وقار و جمال اسی کا ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لباس میں مقدس فرشتہ ہوتا ہے، جو بھی اس کو دیکھتا ہے بےتحاشا ماھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم، پکار اٹھتا ہے۔ ان باتوں کی یاد دہانی جن کی ہدایت ابتدا ہی میں آدم کو کی گئی تھی :۔ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ، یہ اوپر والی بات جس کی یاد دہانی کی گئی ہے ان باتوں میں سے ہے جن کی ہدایت اولاد آدم کو اسی وقت کردی گئی تھی جب آدم کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا اور مقصود اس کے حوالہ سے یہ ہے کہ قریش متنبہ ہوں کہ شیطان نے جس فتنے میں آدم کو مبتلا کیا، اسی طرح کے فتنے میں اس نے انہیں بھی مبتلا کیا اسی طرح کے فتنے میں اس نے انہیں بھی مبتلا کردیا ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ آدم کو اس دنیا میں بساتے وقت آدم اور اولادِ آدم کو جو ہدایات اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھیں ان میں سے بعض کا حوالہ قرآن نے دیا ہے۔ مثلاً بقرہ میں ہے قلنا اھبطوا منہا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ ہم نے کہا یہاں سے سب اترو تو اگر آئے تمہارے پاس میری کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ بعینہ یہی مضمون آگے اسی سورة میں آیت 35 میں آ رہا ہے يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول آئیں تمہیں میری آیات سناتے ہوئے تو جس نے تقوی اختیار کیا اور اپنی اصلاح کی، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ ان کو غم لاحق ہوگا) ہمارے نزدیک یہاں بھی انہی باتوں کا حوالہ ہے جن کی ہدایت ابتدا ہی میں اولادِ آدم کو کی گئی تھی تاکہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنے آپ کو شیطان کے اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھ سکیں جس قسم کے فتنے میں اس نے آدم و حوا کو ڈال دیا۔ یہ انہی باتوں کی یاد دہانی اب قریش کو کی جا رہی ہے تاکہ انہیں خبردار کیا جائے کہ وہ بھی شیطان کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں اور اس نے وہی داؤں ان پر بھی چلایا ہے جو آدم پر چلایا تھا۔ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ کے خطاب کی بلاغت :۔ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ کے خطاب کی بلاغ پر بھی یہاں نظر رہے۔ باپ کی زندگی کے حوادث و تجربات اولادِ کے لیے سب سے زیادہ سبق آموز ہوتے ہیں۔ اس کی سرگزشت کسی دوسرے کی کہانی نہیں بلکہ اپنی ہی حکایت ہوتی ہے۔ باپ کے دوستوں سے دوستی، اس کے دشمنوں سے دشمنی باوفا اولاد خاندان کی ناقابلِ فراموش روایت کی طرح محفوظ رکھتی ہے۔ اخلاف اس کو یاد رکھتے ہیں اور اپنے بعد والوں کی طرف اس کو منتقل کرتے اور برابر منتقل کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔ اہل عرب میں تو یہ روایت اتنی محبوب رہی ہے کہ اس میں حق و باطل کا امتیاز بھی باقی نہیں رہا تھا۔ باپ دادا کا دشمن بہرحال پشتہا پشت دشمن ہی سمجھا جاتا اگرچہ اس کی دشمنی برحق ہی کیوں نہ رہی ہو۔ پھر کس قدر حیف کی بات ہے کہ آدم کی اولاد اپنے باپ کے ساتھ شیطان اور اس کی ذریت کی اس دشمنی کو بھول جائے جو سراسر کینہ اور حسد پر مبنی تھی، جو مخفی نہیں بلکہ بالکل علانیہ تھی اور جو صرف مخصوص آدم و حوا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ان کی تمام ذریت کے ساتھ تھی۔ پھر معاملہ صرف بھول جانے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اولاد کی ناخلفی، ناہنجاری، اور نابکاری اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ کتنے ہیں جو اس دشمن اور اس کے ساتھیوں ہی کو اپنا دوست، خیر خواہ اور معتمد بنائے بیٹھے ہیں اور اس کے کہے پر ٹھیک ٹھیک اپنے لیے انہی تباہیوں کے گڑھے کھود رہے ہیں جن میں اس نے آدم کو گرانا چاہا تھا اور وہ اس میں گرچکے تھے، اگر اللہ کی رحمت نے ان کو بچایا نہ ہوتا۔ قرآن کی بلاغت بیان کے قربان جائیے کہ صف ‘ یا بنی آدم ’ کے خطاب کے دو لفظوں کے اندر اس نے یہ سارے مضمرات محفوظ کردیے ہیں۔ آدم کا جو غیور و با وفا بیٹا اس خطاب کے ساتھ قرآن کی ان یاد دہانیوں کو سنتا ہے اس کی رگ رگ شیطان کے خلاف جوشِ حمیت و غیرت سے پھڑک اٹھتی ہے۔ صرف بےغیرت اور ناخلف ہی ہیں جو اس خطاب کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
Top