Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لئے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے (نہلا کر) پاک کر دے اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے۔ اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے۔
11۔ اوپر کی آیت میں یہ بات گذر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں مسلمان بہت ہی کم کچھ اوپر تین سو تھے اور دشمن ایک ہزار کے قریب تھے یہ کثرت دشمنوں کی دیکھ کر مسلمانوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دیکھئے کیوں کر ان پر فتح نصیب ہوتی ہے اس پر یہ ہوا کہ رات کو مسلمانوں کو نہانے کی حاجت ہوگئی اور پانی پر کفار کا قبضہ ہوگیا تھا ریت کی زمین تھی خشکی کے سبب سے نہ انسان کے پاؤں جمتے تھے نہ جانور چل سکتے تھے صبح نماز وغیرہ فرائض ضروری ادا کرنے سے مجبور ہوئے جس کا ان کے دل پر بہت بڑا اثر ہوا اور سمجھے کہ یہ شکست کے آثار ہیں اللہ پاک نے حضرت ﷺ کی دعا سے ایک ہزار فرشتے ان کی مدد کو بھیج دئے جیسا کہ اوپر کی آیت میں گذر چکا اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ پاک نے مسلمانوں پر اونگھ کا غلبہ کردیا جس اونگھ سے یہ لوگ بہت جلد چونک پڑے اور دل میں جو کچھ خوف تھا وہ سب جاتا رہا تھکان بھی سب رفع ہوگئی اور ایک اطمینان حاصل ہوگیا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ جنگ میں اونگھنا خداوند جل شانہ کی طرف سے امن ہے اور نماز میں اونگھنا شیطان کا وسوسہ ہے پھر اللہ پاک نے مینہ برسایا زمین سخت ہوگئی گردو غبار بیٹھ گیا لوگوں کی پیاس کبھی اپنے اپنے برتن پانی سے بھر لئے حوائج ضروری سے فارغ ہوئے وضو کیا غسل کیا پاک و طاہر ہوگئے اسی کو فرمایا کہ تمہارے رب نے تم سے شیطانی وسوسہ دور کردیا کیونکہ حاجت غسل کو بھی علماء شیطانی وسوسہ خیال کرتے ہیں بہر حال اللہ پاک نے جس طرح اونگھ بھیج کر ان کے دلوں کو وسوسوں سے پاک وصاف کیا اسی طرح مینہ برساکر ان کے جسموں کو بھی پاک کردیا پھر روحانی اور جسمانی شجاعت کی طرف ان کا خیال پھیرا کہ تم دل میں یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کل امور شکست کے آثار ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے دفع کردیا اب تمہارے دل مطمئن ہوئے اور خاطر جمع ہوئی اور اب تمہارے قدم ریت کی زمین پر جمیں گے اور تمہارے جانور آسانی سے چلیں پھریں گے سورة آل عمران میں گذر چکا ہے کہ لشکر اسلام کو اونگھ احد کی لڑائی میں بھی عین لڑائی کے وقت آئی تھی لیکن وہ اونگھ لڑائی کے بگڑ جانے کا رنج وغم رفع کرنے کے لئے تھی اور بدر کی لڑائی میں لڑائی سے پہلے کی اونگھ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کردیا تھا کہ دشمنوں کی تعداد کے زیادہ ہونے سے مسلمانوں کے دل میں شکست کھانے کا جو اندیشہ تھا وہ اس اونگھ کے بعد جاتا رہا۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خیبر کی لڑائی میں مسلمانوں میں کے لشکر کا ایک شخص بڑی کوشش اور تندہی سے دشمنوں پر حملہ کر رہا تھا اس شخص کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ﷺ نے الہام الہی کے موافق یہ فرمایا کہ اس شخص کا انجام دوزخ ہے۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ظاہری اسباب سے اس شخص کا دوزخی ہونا بعضے صحابہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن آخر کو وہ شخص ایسا زخمی ہوا کہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور خود کشی کر کے مرگیا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ انسان کی سمجھ کے موافق بعضے کاموں کے ظاہری اسباب کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے علم غیب کے موافق جس طرح ان کاموں کا کرنا منظور ہوتا ہے وہ غیب سے کوئی سبب ایسا پیدا کردیتا ہے کہ ظاہری اسباب کے برخلاف وہ کام انجام کو پہنچ جاتے ہیں مثلا جس طرح اس نے بدر کی لڑائی میں اونگھ اور مینہ کو مسلمانوں کو فتح کا اور خیبر کی لڑائی میں خود کشی کو اس شخص کے دوزخی ہونے کا غیبی سبب ٹھہرایا :۔
Top