Tafseer-e-Majidi - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور آپ (اس) کتاب میں موسیٰ (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کیجئے،77۔ بیشک وہ (اللہ کے) خاص کیے ہوئے (بندے) تھے اور وہ رسول تھے۔ نبی تھے،78۔
77۔ یعنی آپ لوگوں کو اس کتاب میں سے پڑھ کر سنائیے ورنہ ذکر کرنے والا تو حقیقۃ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 61۔ (آیت) ” موسیٰ “۔ پر حاشیے سورة بقرہ پارہ اول میں گزر چکے ، 78۔ رسول اور نبی کی تفسیر میں اقوال متعدد ہیں، تتبع آیات مختلفہ سے جو بات احقر کے نزدیک محقق ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مفہوم میں عموم وخصوص من وجہ ہے، رسول شریعت جدیدہ، خواہ شریعت اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے توریت وغیرہ یا صرف مرسل الیہم کے اعتبار سے جدید ہو جیسے اسمعیل (علیہ السلام) کی شریعت، وہی شریعت ابراہیمہ تھی، لیکن قوم جرہم کو اس کا علم حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ہی سے حاصل ہوا۔ اور خواہ وہ رسول نبی ہو یا نہ ہو جیسے ملائکہ کہ ان پر رسل کا اطلاق کیا گیا ہے اور وہ انبیاء نہیں ہیں، یا جیسے انبیاء کے فرستادے اصحابہ جیسا سورة یسین میں ہے (آیت) ” اذ جآء ھا المرسلون “۔ اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہو خواہ شریعت جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعت قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل کی شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ یعنی من وجہ وہ عام ہے، من وجہ یہ عام ہے، پس جن آیتوں میں دونوں مجتمع ہیں اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص وعام کا جمع ہونا صحیح ہے اور جس موقع پر دونوں میں تقابل ہوا ہے جیسے (آیت) ” ما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی “۔ الخ چونکہ عام وخاص مقابل نہیں ہوتے اس لیے اس نبی کو عام نہ لیں گے بلکہ خاص کرلیں گے مبلغ شریعت سابقہ کے ساتھ، بس معنی یہ ہوں گے (آیت) ” ما ارسلنا من قبلک من “ صاحب شرع جدید والا صاحب غیر شرع جدید۔ لیکن چونکہ اب متبادر لفظ رسول سے صاحب نبوت ہوتا ہے اس (تھانوی (رح) (آیت) ” مخلص وہ ہے جسے اللہ نے اپنا خاص کرلیا، اور اعتقاد وعمل کی ہر طرح کی غلطی سے محفوظ کرلیا ہو۔ اے معصوما من الکفر والشرک والفواحش (ابن عباس ؓ حقیقۃ الاخلاص البشری عن کل ما دون اللہ تعالیٰ (راغب)
Top