Urwatul-Wusqaa - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اس کتاب (یعنی قرآن کریم) میں موسیٰ کا ذکر کر ، بلاشبہ وہ ایک بندہ خاص اور فرستادہ نبی تھا
سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ال کتاب میں ذکر کرو جو نبی بھی تھے اور رسول بھی : 51۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں ایک نہایت جلیل القدر نبی تھے جو یعقوب (علیہ السلام) کے پڑوتے یا سکڑپوتے ہوئے اور اس جگہ ان کا ذکر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی وجہ سے کیا گیا ہے کیونکہ آپ کا تعلق جیسا کہ اوپر بیان ہوا ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی ذریت ہے بلکہ آپ کی ذریت میں سے ایک بلند پایہ رسول تھے قرآن کریم میں کسی نبی کا اس قدر تذکرہ نہیں جتنا سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ہے اور موسیٰ عیہ السلام کا نام بھی قرآن کریم میں 514 بار آیا ہے اور اس قدر بار بار کسی دوسرے نبی کا نام نہیں لیا گیا ، آپ کا زمانہ بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کے قریب ہے اور قرآن کریم میں آپ کو مثیل موسیٰ کا لقب بھی دیا گیا ہے اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی امت بھی اس وقت ساری امتوں سے زیادہ تھی اور آپ کے حالات پر تورات کے صفحات بھی شاہد ہے اس لئے بار بار آپ کا ذکر قرآن کریم میں لایا گیا اور آپ کی قوم کی بداعتدالیوں کا ذکر بار بار کیا گیا اور یہ بات قبل ازیں کتنی ہی دفعہ عرض کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کا نبی ہونا ضروری ہے اور ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں ۔ زیر نظر آیت میں آپ کو جو (رسولا نبیا) کہا گیا ہے تو یہ (نبیا) کا لفظ صرف آیت کا بحر ملانے کے لئے کہا گیا ہے ورنہ ہر رسول کا نبی ہونا پہلے ہی طے ہے ۔ زیر نظر آیت میں آپ کی صفت ” مخلص “ کو زیادہ اجاگر کرکے بیان کیا گیا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی صفت صدق کو اجاگر کرکے بیان کیا گیا تھا جس طرح ہر نبی ورسول کا صادق ہونا لازم ہے بالکل اسی طرح ہر نبی ورسول کا مخلص ہونا بھی ضروری ہے گویا صادق کا لفظ بھی ہر نبی ورسول کا صادق ہونا لازم ہے بالکل اسی طرح ہر نبی ورسول کا مخلص ہونا بھی ضروری ہے گویا صادق کا لفظ بھی ہر نبی ورسول کے لئے لازم آتا ہے اور مخلص کا لفظ بھی ‘ تاہم ابراہیم (علیہ السلام) کے نام کے ساتھ (صادقا) کا لفظ مخصوص طریقہ سے لایا گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے نام کے ساتھ (مخلص) کا لفظ لایا گیا ، پھر جس طرح ابراہیم کے نام کے ساتھ (صادقا) کا لفظ خاص وجہ سے لایا گیا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ آپ کو لوگوں نے صادق بھی کہا اور آپ کے ذمہ تین جھوٹ بھی لگائے گئے چونکہ علم الہی میں یہ بات تھی اس لئے قرآن کریم میں آپ کے نام ساتھ (صادقا) کا اضافہ کردیا گیا بالکل اسی طرح قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (مخلصا) بھی مانا اور آپ کے اخلاص میں شک بھی کیا اس لئے آپ کی صفت میں ” مخلص “ کا اضافہ کیا گیا ۔ قرآن کریم نے ایک سے زیادہ بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تشریف لے گئے اور قوم کو بتا کر اور کہہ کر گئے لیکن قوم نے آپ پر اعتبار نہ کیا آپ کے بعد شرارتیں بھی کیں اور آپ کی آمد کے بعد تسلیم بھی نہ کیا بلکہ مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جا کر اپنا رب دکھاؤ اور جب تک ہم دیکھ نہ لیں ہمارے دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتے گویا کہ قوم نے آپ کے اخلاص پر شک کیا اور ایسا بھی ہوا کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا تو قوم نے آپ کو مخلص نہ جانا اور صاف صاف سنا دیا کہ آپ جائیں اور آپ کا خدا جا کر لڑو ہم تو اس جگہ بیٹھیں گے ، اسی طرح کے بہت سے واقعات ہوئے لیکن قرآن کریم نے ان سب واقعات کے لئے ایک جامع لفظ بول دیا کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) مخلص تھے وہ کہتے تھے جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا تھا لیکن قوم نے اپنی بدبختی کے باعث آپ کے اخلاص میں ایک بار نہیں بار بار شک کیا لہذا قرآن کریم نے آپ کے نام کے ساتھ مخلص کا اضافہ کر کے قوم بنی اسرائیل کی اس حرکت کی وضاحت کردی اور آپ کو مخلص کے لقب سے مشرف فرما دیا لیکن مفسرین نے اس لقب کی اور بھی توجیہات بیان کی ہیں قرآن کریم کی بلاغت معجزانہ ہے وہ چلتے چلتے ایک ارشارہ ایسا کردیتا ہے کہ اس کے اندر صفحات کے صفحات مضمون پنہاں ہوتا ہے اور پھر جس قدر کوئی اس کھول سکتا ہے کھولتا جاتا ہے اور اس کا مفہوم واضح ہوتا جاتا ہے یہی حال اس طرح کے کلام کا ہے کہ وہ ابراہیم کے ذکر میں صرف ایک لفظ (صادقا) کہہ کر آگے نکل گیا اور اسی طرح سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے مختصر ذکر میں صرف (مخلصا) کہہ کر آگے چلتا بنا لیکن ان دونوں نبیوں کی ان صفات میں بہت بڑا مضمون پوشیدہ طور پر رکھ دیا اور اب جتنا کوئی اس کو کھولے گا یہ کھلتا چلا جائے گا ۔
Top