Al-Quran-al-Kareem - Hud : 64
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہاے لیے اٰيَةً : نشانی فَذَرُوْهَا : پس اس کو چھوڑ دو تَاْكُلْ : کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ اللّٰهِ : اللہ کی زمین وَلَا تَمَسُّوْهَا : اور اس کو نہ چھوؤ تم بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : پس تمہیں پکڑ لے گا عَذَابٌ : عذاب قَرِيْبٌ : قریب (بہت جلد)
اور اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمہارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمہیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔
وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ : اس اونٹنی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عظمت کے بیان کے لیے ہے، ورنہ ہر اونٹنی اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ قرآن مجید میں اس کے اوصاف یہ آئے ہیں کہ قوم ثمود کے معجزہ طلب کرنے پر صالح ؑ کو یہ اونٹنی ملی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ان کے کنویں کا پانی پینے کی باری مقرر کی گئی کہ ایک دن صرف وہ پیے گی اور ایک دن دوسرے تمام لوگوں کے جانور پانی پییں گے۔ اپنی باری کے دن لوگ جتنا پانی چاہیں نکال کر رکھ لیں، مگر اونٹنی کی باری کے دن صرف وہی پیے گی۔ دیکھیے سورة شعراء (154 تا 156) وہ جہاں چاہے چرے، کوئی شخص اسے اپنے کھیت سے یا کسی بھی جگہ سے چرنے سے نہیں روکے گا اور یہ کہ اگر کسی نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو انھیں قریب ہی عذاب عظیم آپکڑے گا۔ (آیت زیر تفسیر) یہاں ”عَذَابٌ قَرِيْبٌ“ ہے جبکہ سورة شعراء (156) میں ”عَذَابٌ یَوْمٍ عَظِیْمْ“ ہے۔ لَكُمْ اٰيَةً : اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اونٹنی ایک معجزہ تھی۔ ایک پورا دن اس کے پینے کے لیے باری مقرر کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی، مگر وہ کیسے وجود میں آئی ؟ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر مجھے نہیں ملا۔ بہت سی تفاسیر کے مطالعے کے بعد کم ازکم میری تسلی تو شیخ عبد الرحمن بن ناصر بن سعدی ؓ کی تفسیر ”تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان“ کے کلام سے ہوئی، جو انھوں نے سورة اعراف میں قوم ثمود کی اونٹنی کے متعلق فرمایا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں : ”جان لو کہ اکثر مفسرین یہ قصہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے نکلی، جس طرح کی اونٹنی نکالنے کا انھوں نے صالح ؑ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حاملہ ہو اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ اونٹنی کی صورت میں نکلی۔ اسے حاملہ اونٹنیوں کی طرح ولادت کا درد ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ جس وقت انھوں نے اونٹنی کو کاٹا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور تین دفعہ اونٹ کی طرح بلبلایا، چناچہ پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں غائب ہوگیا اور یہ کہ صالح ؑ نے ان سے کہا کہ تمہیں جو تین دن ملے ہیں ان میں سے پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا۔“ شیخ سعدی ؓ فرماتے ہیں : ”یہ تمام باتیں اسرائیلیات سے ہیں، جنھیں اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں اور قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان باتوں میں سے کسی ایک پر کسی طرح دلالت کرتی ہو، بلکہ اگر یہ باتیں صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ ان میں ایسی عجیب باتیں، عبرتیں اور نشانیاں ہیں جن کا ذکر ساتھ ہی ہونا تھا۔ اب اگر یہ ایسے لوگوں کی طرف سے آئیں جن پر اعتماد ہو ہی نہیں سکتا تو کیسے قبول ہوسکتی ہیں ؟ بلکہ ان میں سے بعض تو قرآن مجید کی تصریحات ہی سے درست معلوم نہیں ہوتی ہیں، مثلاً صالح ؑ نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر ان سے فرمایا : (تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ) تمتع خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کو کہتے ہیں۔ وہ لوگ صالح ؑ کو اور عذاب آنے کو جھٹلا رہے تھے بلکہ بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر ان کے چہرے ہی زرد، سرخ اور سیاہ ہوگئے ہوں تو انھیں تین دن خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کی مہلت کیا خاک ملی۔ یہ قرآن کے صاف خلاف نہیں تو کیا ہے ؟ ہدایت کے لیے تو قرآن کافی ہے، ہاں، اگر کوئی بات رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو، تو وہ کتاب اللہ سے نہیں ٹکرائے گی، وہ سر آنکھوں پر اور اسے ماننے کا قرآن نے حکم دیا ہے : (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) [ الحشر : 7 ] ”اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ۔“ اور پہلے گزر چکا ہے کہ قرآن کی تفسیر اسرائیلیات سے جائز نہیں، خواہ ان سے وہ بات نقل کرنا جائز بھی ہو، جس کا جھوٹا ہونا یقینی نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے معانی یقینی ہیں، ان کی تفسیر ایسی باتوں سے کرنا جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لاَ تُصَدِّقُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ) [ بخاری، التفسیر، باب : (قولوا ٰامنا باللہ۔۔): 4485] ”نہ انھیں سچا سمجھا جائے نہ جھوٹا۔“ ایسا کام ہے جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔“ تمتع کے بارے میں ایک شعر ملاحظہ فرمائیے ؂ تَمَتَّعْ مِنْ شَمِیْمِ عَرَارِ نَجْدٍ فَمَا بَعْدَ الْعَشِیَّۃِ مِنْ عَرَارِ ”نجد کی ”عرار“ نامی بوٹی کی خوشبو سے خوب فائدہ اٹھا لو، کیونکہ آج سہ پہر کے بعد پھر ”عرار“ نہیں ملے گی۔“ (کیونکہ شاعر وہاں سے کوچ کر رہا تھا)
Top