Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 64
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہاے لیے اٰيَةً : نشانی فَذَرُوْهَا : پس اس کو چھوڑ دو تَاْكُلْ : کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ اللّٰهِ : اللہ کی زمین وَلَا تَمَسُّوْهَا : اور اس کو نہ چھوؤ تم بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : پس تمہیں پکڑ لے گا عَذَابٌ : عذاب قَرِيْبٌ : قریب (بہت جلد)
“ اور اے میری قوم کے لوگو ، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین میں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو ، اس سے ذرا تعرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا۔ ”
یہاں یہ قرآن کریم نے اس ناقہ کے بارے میں تفصیلات نہیں دی ہیں جو ان کے لیے ایک نشانی اور علامت تھی۔ لیکن اس ناقہ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ “ اللہ کی اونٹنی ” ہے۔ اور تمہارے لیے یہ ایک نشانی ہے ان ریمارکس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ممتاز اونٹنی تھی اور وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے لیے اللہ کی جانب سے ایک نشانی ہے۔ بس ہم بھی یہاں صرف ان باتوں پر اکتفاء کرتے اور ناقہ صالح (علیہ السلام) کے بارے میں اسرائیلی روایات کے مطابق مفسرین نے جو رطب ویابس جمع کی ہیں ان کے ساتھ یہاں تعرض نہیں کرتے۔ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ (64 : 11) “ دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین پر چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو ۔ اس سے ذرا تعرض نہ کرنا۔ ” ورنہ اللہ تمہیں بہت جلد پکڑ لے گا اور عذاب دے گا۔ عبارت میں فاء تعجیل کے لیے ہے۔ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ (11 : 64) ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا ”۔ یعنی تم اللہ کی شدید پکڑ میں آجاؤ گے ، انداز تعبیر محض عذاب ہونے یا عذاب کے نزول سے کہیں زیادہ کسی چیز کو ظاہر کر رہا ہے۔
Top