Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 57
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١٘ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : سو ہم نے بچالیا وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : سوائے امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی قَدَّرْنٰهَا : ہم نے اسے ٹھہرا دیا تھا مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بچالیا مگر اس کی بیوی۔ ہم نے اسے پیچھے رہنے والوں میں طے کردیا تھا۔
فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ۔۔ : اس کی تفصیل سورة ہود (81 تا 83) میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس سورت میں موسیٰ ؑ کے بعد تین انبیاء سلیمان، صالح اور لوط ؑ کے حالات کا ذکر ہوا ہے اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ ﷺ کے حالات میں مشابہت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً سلیمان ؑ نے ملکہ سبا کو پیغام بھیجا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر، ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی تم تاب نہ لا سکو گے۔ چناچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ صالح ؑ کو ان کی قوم نے بلوے کی صورت میں شب خون مار کر قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات دے دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ ﷺ سے یہی سلوک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی سازش سے بال بال بچا لیا۔ لوط ؑ کی قوم کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں، جب کہ قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو عملاً شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ (کیلانی) 3 ابو حیان اندلسی نے فرمایا کہ لوط ؑ کے قصے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پورے قرآن میں لوط ؑ کے انھیں اس بےحیائی سے روکنے ہی کا ذکر ہے، توحید کی دعوت کا ذکر نہیں، اس کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں، لیکن اس برے کام کی ایجاد اور اپنے رسول کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب آیا ہو، جیسا کہ سورة شعراء میں ہے : (كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ) [ الشعراء : 160 ]”لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔“ یا یہ وجہ ہے کہ وہ تھے تو مشرک لیکن جب لوط ؑ نے دیکھا کہ وہ بہیمیت میں بلکہ اس سے بھی نیچے درجے میں گر چکے ہیں، تو ضروری سمجھا کہ پہلے انھیں انسانیت کے رتبے کی دعوت دی جائے، پھر توحید کی دعوت دی جائے۔ (البحر المحیط)
Top