Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 57
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١٘ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : سو ہم نے بچالیا وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : سوائے امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی قَدَّرْنٰهَا : ہم نے اسے ٹھہرا دیا تھا مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
تو ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو نجات دی بجز اس کی بیوی کے، اس کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں شمار کر رکھا تھا
فانجینہ واھلہ الا امراتہ قدرنھا من الغبرین (57) لفظ اھل بھی جیسا کہ ہم اس کے محل میں وضاحت کرچکے ہیں، اہل و عیال اور اتباع و صحابہ سب کے لئے آتا ہے اور یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ذمہ داری بقدر انعام ہے قدرنھا من الغبرین سے صرف یہی بات نہیں واضح ہوتی کہ حضرت لوط کی بیوی اس نجات سے محروم رہی بلکہ یہ بات بھی اس سے نکلتی ہے کہ اس پتھرائو کا نشانہ بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو خاص قوم کے ساتھ ہی رہیں تو دوسروں کے مقابل میں خدا کے غضب کی وہ زیادہ مستحق تھی۔ اللہ تعالیٰ جن کو تعلیم و ہدایت کے جتنے ہی زیادہ مواقع میسر فرماتا ہے، اگر وہ اس کی قدر نہیں کرتے تو ان کو سزا بھی اسی کے حساب سے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ذمہ داری نقد انعام ہے۔ قوم لوط کا انجام یعنی لوط اور ان کے ساتھیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے نجات بخشی اور بقیہ پوری قوم پر، فرمایا کہ ہم نے ایک نہایت بری بارش برسائی۔ اس بارش سے مراد اس پتھرائو کی بارش ہے جس کی تفصیل پیچھے کی سورتوں میں گزرچکی ہے نسآء مطر المنذرین میں اسی حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بری بارش نتیجہ تھی اس بات کا کہ ان لوگوں پر اللہ نے اپنے ایک رسول کے ذریعہ سے اتمام حجت فرما دیا تھا۔ اس اتمام حجت کے بعد بھی جب وہ اندھے بہرے بھی بنے رہے تو مستحق تھے کہ وہ سنگسار کر کے زمین میں دفن کردیئے جائیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ قوم ثمود کی طرح قوم لوط کی بستیاں بھی قریش کی گزر گاہیں تھیں۔ اسی وجہ سے ان دونوں قوموں کا خاص طور پر اس سورة میں ذکر فرمایا کہ دور اور قریب دونوں کے ٓثار کی طرف ان کی توجہ دلا دی جائے۔
Top