Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟
وقالوا لو لا نزل ھذا القرآن…: پچھلی ایٓ میں ان کے قرآن پر طعن کا ذکر تھا تو اس آیت میں قرآن لانے والے پر اعتراض کا ذکر ہے۔ کفار پہلے تو کسی بشر کا رسول ہونا ہی ماننے کے لئے تیار نہ تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ رسول فرشتہ ہونا چاہیے۔ جب ناقابل تردید دلائل سے انھیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسول بشر ہی بھیجے ہیں، تمہارے جد امجد ابراہیم و اسماعیل ؓ اور دوسرے پیغمبر، مثلاً موسیٰ ؑ سب بشر ہی تھے، تو فرشتہ رسول کا مطالبہ چھوڑ کر یہ مطالبہ داغ دیا کہ یہ قرآن دو بستیوں میں سے کسی عظیم آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ دو بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہیں ، کیونکہ ان کی مرکزی بستیاں یہ دو ہی تھیں۔ ”عظیم“ سے مراد دنیاوی مال و دولت اور جاہ مرتبہ کے لحاظ سے عظیم ہے۔ مفسرین مکہ کے ان عظیم آدمیوں میں سے ولید بن مغیرہ یا عتبہ بن ربیعہ کا اور طائف کے عظماء میں سے عروہ بن مسعود، حبیب بن عمر یا کنانہ بن عبد یالیل یا اس قبیل کے دوسرے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کفار کے خیال میں مال کی کثرت اور قوم کے سردار ہونے کی وجہ سے یہ لوگ نبوت کے حق دار تھے۔ محمد ﷺ مال و جاہ کی کمی کی وجہ سے اس کے اہل نہیں تھے، کیونکہ آپ کے پاس دولت کی کثرت تھی نہ کسی قبیلے کی سرداری۔ یہ کفار کی جہالت اور سخت نادانی تھی کہ انہوں نے نبوت کے منصب کے لئے مال و جاہ کو شرط قرار دیا۔
Top